ہمارے بچپن میں فال نکالنے کے طریقے

مجھے یاد ہے، تعلیم جب اتنی عام نہ تھی، تو توہمات کی بہتات تھی۔ لوگ فال اور تعویذ کے بڑے قائل تھے۔کئی نیم خواندہ گھروں میں ’’فال نامہ‘‘ کے نام سے پشتو میں لکھی ہوئی منظوم و منثور کتابیں تھیں، جو اوسط درجے کے کاغذ پرچھپی ہوتی تھیں۔ اُن رسالہ نما غیر مجلد کتابوں کی […]
ریاست سوات کے آثار کے ساتھ ناروا سلوک کیوں؟

سوات کے ریاستی دور کے آثار مٹتے مٹاتے تقریباً معدوم ہوگئے ہیں۔ شاید ہی کہیں اِک آدھ باقی ہوں، باقی سب قصۂ پارینہ بن چکے ہیں۔مَیں نے اپنی فیس بک وال پر ’’آنجہانی‘‘ ہونے والی تحصیلِ بری کوٹ کی عمارت کی ایک تصویر دی ہے، جو اَب ’’سورگ باش‘‘ ہوچکی ہے۔ اُس کی جگہ جو […]
سیدو ہسپتال کی ابتر صورتِ حال اور سنہرا ماضی

سیدو ٹیچنگ ہسپتال کی صفائی کے بارے میں ’’سوات نامہ‘‘ (فیس بُک صفحہ) کی ایک پوسٹ پڑھی، بہت افسوس ہوا۔ مَیں صرف ایک بار اس دیو ہیکل عمارت میں گیا تھا کسی کی عیادت کے لیے…… مگر لفٹ کی مسلسل مصروف رہنے کی وجہ سے لابی میں بیٹھ گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ لوگ صفائی […]
ماضی کے جہانزیب کالج کے جوشیلے طلبہ

عظیم مادرِ علمی جہانزیب کالج میں صرف اُس وقت کے صوبہ سرحد (اَب خیبر پختونخوا) نہیں، بل کہ پنجاب تک سے لڑکے پڑھنے آتے تھے۔ پنجاب سے آئے ہوئے لڑکے اکثر بہت ذہین اور چالاک ہوتے تھے۔ یہ لڑکے دوسرے طلبہ سے الگ تلگ رہتے تھے اور اکٹھے پھرتے تھے۔ بعض کے سواتیوں سے اور […]
دریائے سوات اور کرش مافیا

آج کل جو اہم موضوع زیرِ بحث ہے، وہ ہے کرش مافیا اور دریائے سوات۔آخر یہ مسئلہ پیدا کیسے ہوا؟جس رفتار سے سوات میں تعمیرات بڑھ رہی ہیں۔ عظیم الجثہ کئی منزلہ پلازے، ٹاؤن شپ اور ہوٹل تعمیر ہورہے ہیں، اور جس طرح نقل و حمل کے لیے شاہ راہیں تعمیر ہورہی ہیں، اُن کے […]
جب تنخواہ کم تھی اور اطمینان زیادہ

ریاستی دور کی ملازمت بھی ایک ایڈونچر سے کم نہیں تھی۔ صبح شیو کرنے کے بعد موسم کی مناسبت سے مغربی لباس پہننا، ٹائی یا بُو لگانا، صاف ستھرا نظر آنے کا اہتمام کرنا اور اگر حضور کے دفتر میں پیشی کا موقع ملا ہے، تو دعائیں مانگنا۔یہ دراصل میری ملازمت کے ابتدائی برسوں کی […]
نسوار سے جڑی یادیں

چلیں، آج اس گھمبیر ماحول میں کچھ ہلکی پھلکی بات کی جائے۔نسوار کی برکتیں اتنی زیادہ ہیں کہ اس مختصر وقت میں ناممکن ہے کہ اُن کا احاطہ ہوسکے۔ ہمارے سیدو شریف میں سیدو بابا مسجد کے پہلو میں ایک سپر سٹور تھا (شاید اب بھی ہو)، اُس کی ابتدا نسوار ہی سے ہوئی تھی۔ […]
مولوی صاحب، گدھا اور ہجوم

کہتے ہیں کہ ایک گاؤں میں مولوی صاحب رہتے تھے۔ ان کا کوئی دوسرا ذریعۂ آمدن نہ تھا اور گاؤں میں رہتے ہوئے گزارہ بہت مشکل تھا ۔اُسی گاؤں میں کوئی نیک دل جاگیردار بھی رہتا تھا۔ اُس نے زمین کا ایک ٹکڑا مولوی صاحب کو ہدیہ کیا کہ ویسے بھی سارا دن آپ فارغ […]
ریاستِ سوات میں اجتماعی ذمے داری کا تصور

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے ، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)ریاستِ سوات کے دور میں جرائم اور کمیونٹی کی اجتماعی ذمے داری کے بارے میں واضح تصویر پیش کرنا میرے لیے ممکن نہیں، مگر چند بنیادی باتیں ضرور چاہوں گا کہ آپ سے شیئر کروں۔ زیادہ […]
ریاستِ سوات کا جھنڈا اور ترانہ

دوستو! آپ سب ریاستِ سوات کے جھنڈے کے بارے میں جانتے ہوں گے۔ اسے والئی سوات کی رہایش گاہ پر ہر صبح لہرایا جاتا اور غروبِ آفتاب کے بعد اُتار لیا جاتا۔ اس کے سکولوں میں 12 دسمبر اور 5 جون کو بھی ’’فلیگ ماسٹ‘‘ پر چڑھایا جاتا تھا۔ریاستِ سوات ایک شاہی ریاست تھی۔ یہ […]
ڈاکٹر لوکا اور جانو جرمن

1964ء کی بات ہے، ہم مختلف سائٹس کا انسپکشن کرتے کرتے میاندم پہنچ گئے۔ وہاں کے ریاستی گیسٹ ہاؤسز میں جو بڑا اور وی آئی پی ریسٹ ہاؤس ہے، وہاں پر ہم نے پڑاو ڈالا۔ ایک درخت کی شاخ سے ذبح شدہ دُنبہ لٹکا کر کچھ ساتھی اس کا کوٹ اُتارنے لگے۔ کچھ مسالہ جات […]
ریاستی دور کا ایک خواجہ سرا

ریڈیو سے جڑی ہماری یادیں

سٹیٹ فورسز کا مرکزی دفتر

ریاستِ سوات کا پورا سکرٹیریٹ جس میں حکم ران اور ولی عہد کے دفاتر بھی شامل تھے، اُنھی اونچی چناروں کے سائے میں تھا، جہاں آج کل کمشنر، آر پی اُو اور دیگر دفاتر کام کر رہے ہیں۔ ریاست کا فوجی دفتر اسی بلڈنگ میں واقع تھا، جو ادغام کے بعد ابھی تک ڈسٹرکٹ کمپٹرولر […]
باچا صاحب کے ساتھ جڑی ایک یاد

حکومتِ خداداد یوسف زئی ریاستِ سوات و متعلقات کے بانی میاں گل عبدالودود معروف بہ باچا صاحب میانگل عبدالخالق کے بیٹے اور اخوند آف سوات عبدالغفور الملقب بہ سیدو بابا کے پوتے تھے۔ یہاں پر ہم سوات کی تاریخ نہیں دہراتے۔ صرف اُن کے بارے میں چند ایسے واقعات کا ذکر مقصود ہے، جو میری […]
عظیم مادرِ علمی جہانزیب کالج سے وابستہ یادیں

پچھلے ہفتے جہانزیب کالج کے کچھ طلبہ کے ساتھ ایک بہت ہی مفید نشست رہی۔ مَیں اُن پیارے بچوں کا از حد ممنون ہوں، جنھوں نے نہایت تحمل سے مجھے سنا اور میری ثقلِ سماعت سے درگزر کرتے رہے۔ گفت گو کے اختتام پر اُن کے چند مختصر سوالات پر بحث سمیٹتے ہوئے میری توجہ […]
کچھ والد بزرگوار محمد عظیم مرزا کے بارے میں

میرے مرحوم والد محمد عظیم مرزا اور میرے چچا شاہزاللہ اپنے باپ حبیب اللہ کے سائے سے بہت کم عمری میں محروم ہوگئے۔وہ اتنے کم عمر بچے تھے کہ اُن کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اُن کے والد کیوں اور کہاں جان کی بازی ہار گئے؟ یہ بات اُن کو بہت بعد میں […]
ریاستِ سوات کے مالیاتی نظام کا مختصر سا جائزہ

ریاستِ سوات کے قیام کے ابتدائی سالوں میں مالیات کا کوئی مربوط نظام نہیں تھا۔ روزمرہ کے اخراجات بادشاہ صاحب کی ذاتی جائیداد کے علاوہ مینگورہ کے ایک متمول تاجر حاجی شمشی کے گراں قدر عطیے کے باعث ممکن ہوسکے تھے۔ بادشاہ صاحب سوات کے چند ممتاز صاحبِ ثروت لوگوں میں شامل تھے۔ اُن دنوں […]
کچھ پروفیسر اشرف الطاف کے بارے میں

آغاز ہی سے جہانزیب کالج کو بہترین اساتذہ کی خدمات حاصل رہی ہیں۔ کالج کے پہلے پرنسپل حافظ محمد عثمان مشہور ریاضی دان تھے۔ زیادہ تر اکیڈیمک سٹاف غیر مقامی افراد پر مشتمل تھا،مگر وہ بہت تن دہی اور جذباتی انداز سے اس نئے ادارے کو علم کا گہوارا بنانے کے لیے کوشاں تھا۔ وقت […]
چکیسر (شانگلہ) سے جڑی کچھ یادیں

آخر چکیسر میں کیا خاص بات ہے کہ 66 سال بعد بھی میں اس کے سحر سے نہ نکل سکا۔ 1958ء میں میٹرک کے نتائج کا انتظار تھا، تو مَیں اپنے ایک عزیز کے پاس چکیسر چلا گیا، جو وہاں پر سٹیٹ سول ڈسپنسری کے انچارج تھے۔ اُن کا نام سلطان محمد تھا۔ سیدو شریف […]
ریاستِ سوات کے 52 سالوں کا مختصر ترین تقابلی جائزہ

میری یہ سطور غور سے پڑھیں۔ میرا یہ ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ نے سوات کے اُن 52 سالوں کے بارے میں جو رائے قائم کی ہے، آپ اُسے ترک کردیں۔ وہ 52 سال جو 1917ء سے 1969ء تک کے عرصے پر پھیلے ہوئے ہیں اور وہ دو باپ بیٹے، جنھوں نے اپنی دانش […]