عیدین پر ایک بہت بڑا میلا ’’سیند‘‘ کے مقام پر دریائے سوات کے کنارے لگتا تھا۔ جہاں پر آج کل سوات پولیس لائن ہے؛ چناروں کا ایک بہت بڑا جھنڈ تھا۔ یہیں پر پہلے پہل ایک ہی ریسٹ ہاؤس ہوا کرتا تھا، جس کی عمارت خوب صورت تھی۔ لکڑی کے خوب صورت کام سے مزین اور سی جی آئی شیٹس کی چھت بہت شان دار لگ رہی تھی۔ بعد میں دو جدید طرز کے ریسٹ ہاؤس تعمیر کیے گئے۔
دریا کے کنارے سے ذرا ہٹ کر ایک چھوٹی سی مسجد تھی۔ والیِ سوات اکثر شام کو دریا میں تیراکی کرتے اسی مسجد میں شام کی نماز پڑھتے۔بچپن میں ہم کبھی کبھی سیدو سے اتنی دور دریا پر نہانے کے لیے جایا کرتے، تو کئی بار والی سوات کو گارڈز کے ساتھ دریا میں تیرتے دیکھا کرتے۔
بات ہو رہی تھے میلے کی، تو چھوٹی عید پر 3 دن میلا لگتا اور بڑی عید پر چار دن۔ میلے کی خاص بات رقاصاؤں کی محفلیں ہوا کرتی۔ مذکورہ محفلیں کھلے میدان میں صبح سے شام تک جاری رہتیں۔ جو لوگ پیسے دینا چاہتے، وہ حسبِ استطاعت پیسے دیتے۔ رقص و سرود کی محفلیں شام تک چلتی رہتیں۔
میرا خیال ہے کہ سبھی اہلِ فن ریاست کے باہر سے یہاں آکر رہنے لگے تھے۔ کیوں کہ مقامی موسیقی تو دَف، بانسری اور شہنائی تک محدود تھی، اور یہ وہ مرد فن کار تھے، جو نسلوں سے یہی کام کرتے چلے آئے تھے۔ وہ شادیوں پر ڈولی کے آگے چلتے تھے۔ کسی مقامی خاتون کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ وہ کھلے میدان میں مردوں کی بیچ ناچے۔
سوات کے مذکورہ میلوں کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی اور مردان چارسدہ تک کے لوگ یہی میلے دیکھنے کی غرض سے آتے تھے۔
ان محافل کے علاوہ کھانے پینے کے عارضی ڈھابے۔ کباب خانے (جنھیں ہم پشتو میں دَ کبابو کڑھی) اور مداریوں کے کرتب بھی میلے کی دل کشی بڑھاتے تھے۔ تحصیل دار بابوزئی دن بھر ڈیوٹی پر موجود رہتا۔ مٹھی بھر سپاہی پورے میلے میں امن برقرار رکھتے۔ تحصیل دار کبھی کبھار ریسٹ ہاؤس سے نکل کر پورے میلے کا چکر لگاتے۔ مقامی لوگ خصوصاً ’’نیکپی خیل اور بر سوات متوڑیزئی کے لوگ میلہ دیکھنے آتے۔ بعض من چلے رقص کی محافل سے لطف اٹھانے کے لیے چناروں پر چڑھ کر بیٹھ جاتے۔
مذکورہ تین چار دِن پلک جھپکتے میں گزر جاتے۔ عید کی نماز کا بہت اہتمام کیا جاتا۔ والیِ سوات بنگلے سے پیدل سیدو بابا مسجد، نمازِ عید پڑھنے کی غرض سے جاتے تھے۔ نماز کے بعد وہ واپس چلے جاتے۔
اُس دن بنگلے کے گیٹ کھلے رکھے جاتے اور عام لوگ اُن کو عید مبارک باد دینے کے لیے جاتے۔ وہ ہر ایک سے ہاتھ ملاتے۔ بعض لوگوں کو بیٹھنے کے لیے کہتے، ورنہ لوگ شمالی گیٹ سے داخل ہوتے اور اُن سے ملنے کے بعد جنوبی گیٹ سے باہر چلے جاتے۔
اُس موقع پر بعض لوگوں کو پھل خصوصاً مالٹے بچوں کے لیے دیے جاتے۔ مجھے اب بھی یاد ہے، ہم شدت سے انتظار کرتے کہ بابا والی صاحب سے ملاقات کے بعد مالٹے لائیں گے۔
غرض یہ کہ عیدواقعی عید ہوتی۔خوشیوں بھری، امن و سکوں کے ساتھ۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
