ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی ایک مکمل جنگ کی طرف بڑھتی محسوس ہو رہی ہے اور ایسے میں پاکستان ایک نازک جغرافیائی اور سیاسی دوراہے پر کھڑا ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ایک بار پھر مغربی مفادات کی خاطر ’’فرنٹ لائن اسٹیٹ‘‘ کا کردار ادا کرے گا؟ اور اگر ایسا ہوا، تو اس کے سب سے خطرناک اثرات خیبر پختونخوا اور بلوچستان جیسے حساس علاقوں پر مرتب ہوسکتے ہیں۔
2001ء میں 9/11 کے بعد امریکہ کا اتحادی بننے کے پاکستان کے فیصلے نے وقتی سفارتی فائدے تو دیے، مگر اس کے عوض فرقہ وارانہ تشدد، شدت پسندی، انسانی ہجرت اور اندرونی سیاسی و سماجی تباہی کی ایک طویل لہر بھی ملک پر چھا گئی۔ اب اگر پاکستان ایران کے خلاف کسی ممکنہ جنگ کا حصہ بنتا ہے، تو یہ تباہی دوبارہ دہرائی جا سکتی ہے، بل کہ شاید اس بار زیادہ سنگین انداز میں۔
٭ فرقہ واریت کی آگ بھڑک سکتی ہے:۔ ایران چوں کہ ایک شیعہ اکثریتی ملک ہے، اس لیے اس کے خلاف کسی بھی اتحاد میں شامل ہونا پاکستان کے اندر پہلے سے موجود فرقہ وارانہ کشیدگی کو مزید ہوا دے سکتا ہے۔ کالعدم تنظیمیں جیسے ’’سپاہ صحابہ‘‘ اور ’’لشکرِ جھنگوی‘‘ دوبارہ منظم ہوسکتی ہیں، خصوصاً کوئٹہ، پاراچنار، ہنگو اور ڈی آئی خان جیسے حساس علاقوں میں۔ اس کا نتیجہ پاکستان کی شیعہ برادری میں عدم تحفظ اور ممکنہ ہنگاموں کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
٭ علاحدگی پسند تحریکوں کو تقویت مل سکتی ہے:۔ بلوچ علاحدگی پسندوں کے لیے یہ پاکستان کی ’’غلامی‘‘ کا ایک اور ثبوت ہوگا کہ ریاست پھر کسی بیرونی طاقت کے ایجنڈے پر چل رہی ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی جیسے گروہ ریاستی تنصیبات اور سیکورٹی فورسز پر حملے مزید بڑھا سکتے ہیں۔ اسی طرح، پشتون قوم پرست حلقے، جو پہلے ہی ریاستی ناانصافیوں سے نالاں ہیں، اس صورتِ حال کو ’’مزاحمت‘‘ کا نیا بیانیہ بناسکتے ہیں۔
٭ بارڈر ایریاز پراکسی وار کا میدان بن سکتے ہیں:۔ اگر ایران ردِعمل میں بالواسطہ طور پر پراکسیز کو متحرک کرے، تو بلوچستان اور کے پی ایک بار پھر سرد جنگ یا افغانستان کی جنگ کی طرز پر غیر ملکی پراکسی وارز کا مرکز بن سکتے ہیں۔ اس بار پاکستان کو کئی محاذوں پر لڑنا پڑے گا، جن میں زیادہ تر ’’اَن دیکھے‘‘دشمن ہوں گے ۔
٭ دہشت گردی کی نئی لہر کا خدشہ:۔ جس طرح 2001ء کے بعد قبائلی علاقوں میں نئے طالبان پیدا ہوئے، اسی طرح اگر پاکستان ایران مخالف جنگ میں شامل ہوا تو نئے شدت پسند گروہ بھی اُبھر سکتے ہیں، جن کا ایجنڈا ’’مغرب مخالف‘‘ یا ’’شیعہ مخالف‘‘ ہوسکتا ہے۔ پشاور، سوات اور کوئٹہ جیسے شہر دوبارہ بم دھماکوں، خودکُش حملوں اور قتل و غارت گری کا شکار بن سکتے ہیں۔
٭ انسانی بحران اور بے گھر افراد کی نئی لہر:۔ اگر ریاستی کارروائیاں شروع ہوئیں، تو لاکھوں افراد ایک بار پھر بے گھر ہوسکتے ہیں، جیسا کہ ملاکنڈ، وزیرستان اور باجوڑ میں ہوا تھا۔ چوں کہ پہلے ہی متاثرہ علاقوں میں بہ حالی کے وسائل ناکافی ہیں، اس لیے نیا بحران ملک کو سماجی و اقتصادی طور پر مفلوج کرسکتا ہے۔
٭ معیشت اور سماجی ڈھانچے کو دھچکا:۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان پہلے ہی پس ماندگی کا شکار ہیں۔ اگر وسائل ایک نئی جنگ کی نذر ہوگئے، تو تعلیم، صحت اور روزگار جیسے شعبوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے، جو عوام میں مزید مایوسی اور اشتعال کا باعث بنے گا۔
٭ بین الاقوامی تنہائی کا خطرہ:۔ ایران کے خلاف کھڑا ہونا پاکستان کے لیے چین، ترکی اور بعض خلیجی ممالک سے تعلقات میں بگاڑ پیدا کرسکتا ہے۔ داخلی طور پر یہ اقدام عوام کے سامنے ریاست کی خودمختاری پر سوالات کھڑے کرے گا اور یہ تصور عام ہوجائے گا کہ پاکستان ایک بار پھر ’’کرائے کا فوجی‘‘ بن رہا ہے۔
٭ جمہوریت اور سیاسی نظام پر ضرب:۔ جیسا کہ مشرف دور میں ہوا، ایک بار پھر سیاسی جماعتوں کو نظر انداز کر کے مصنوعی اتحاد بنائے جاسکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں آمرانہ طرزِ حکم رانی کو فروغ ملے گا اور جمہوری ادارے کم زور ہوں گے۔ کے پی اور بلوچستان جیسے حساس علاقوں میں آواز بلند کرنے والوں کو دبانے کی کوشش مزید انتشار کا باعث بنے گی۔
٭ نتیجہ، سبق سیکھنے کا وقت ہے، دہرانے کا نہیں:۔ پاکستان کا 9/11 کے بعد کا تجربہ ہمارے سامنے ایک واضح تصویر رکھتا ہے، جس میں قوم نے اپنے ہی علاقوں کو میدانِ جنگ بنتے دیکھا، لاکھوں افراد دربہ در ہوئے اور دہشت گردی نے ہماری روزمرہ زندگی کو نگل لیا۔ اگر ایران-اسرائیل جنگ کے تناظر میں پاکستان وہی پرانا کردار دوبارہ نبھاتا ہے، تو اس کا سب سے بڑا نقصان خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو ہوگا۔
اب فیصلہ حکمت، جمہوریت اور قومی مفاد کی بنیاد پر ہونا چاہیے، نہ کہ بیرونی دباو پر۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
