حسن المآب ایڈوکیٹ

Blogger Sami Khan Torwali

اس تصویر میں نظر آنے والی شخصیت کسی رسمی تعارف کی متقاضی نہیں، کیوں کہ یہ وہ ذات ہے جن کی خدمات، افکار اور عملی کردار خود اس کا تعارف ہیں۔
جی ہاں! حسن المآب ایڈوکیٹ، جن کا تعلق وادیِ سحر انگیز مدین کے محلے برکلے سے ہے، اپنی فکری وابستگی، سیاسی بصیرت اور معاشرتی خدمت کے اعتبار سے ایک ایسے مردِ دانا ہیں، جن کی شخصیت مختلف النوع خوبیوں کا مرقع ہے۔
حسن المآب صاحب کی فکری اساس بانیِ تحریکِ عدمِ تشدد، راہ برِ انسانیت، باچا خان بابا کے نظریات پر استوار ہے۔ وہ اُن افکار کا محض مدعی نہیں، بل کہ عملی پیکر ہیں۔ اُن کے طرزِ سیاست میں جو وقار، متانت اور اُصول پرستی جھلکتی ہے، وہ کسی بھی روایتی سیاست دان کے کردار سے بلند تر ہے۔ وہ سیاست کو حصولِ اقتدار کا وسیلہ نہیں، بل کہ خدمتِ خلق اور اصلاحِ معاشرہ کا مقدس ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل مشرف کے دورِ حکومت میں جب بلدیاتی ادارے فعال کیے گئے، تو وہ عوام کے اعتماد کا مرکز بنے اور مدین یونین کونسل کے ناظم منتخب ہوئے۔
حسن المآب صاحب کی شخصیت کا نمایاں پہلو اُن کی درد مندی اور انسان دوستی ہے۔ اُن کا در کبھی کسی محتاج، یتیم یا مسکین کے لیے بند نہ ہوا۔ وہ اُن لوگوں میں سے ہیں، جنھیں اللہ تعالا نے درد مند دِل اور دینے والا ہاتھ عطا فرمایا ہے۔ اُن کی سخاوت، اپنائیت اور غم گساری ایسی صفات ہیں، جو عوام الناس کے دلوں میں اُن کی محبت راسخ کرچکی ہیں، تاہم اُن کی حیات کا سب سے روشن باب وہ جد و جہد ہے، جو اُنھوں نے مدین برکلے کی جامع مسجد کی تعمیرِ نو کے سلسلے میں انجام دی۔ ایک وقت تھا جب اس عظیم مسجد کا معاملہ صوبائی حکومت کے منظور شدہ ایک تعمیراتی منصوبے کے تحت چل رہا تھا۔ حکومت نے مسجد کی تعمیر کے لیے 30 ملین روپے کی منظوری دی، مگر دیگر سرکاری منصوبوں کی طرح بد انتظامی، عدمِ توجہی اور فنڈز کے تعطل نے اس مسجد کو بھی تنسیخ و ترک کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔ عمارت ادھوری، دیواریں منہدم، ستون کم زور اور اُمیدیں معدوم ہونے لگیں۔
ایسے میں وہ وقت آیا کہ سرکاری امیدیں بالکل مفقود ہوگئیں۔ مسجد کا ڈھانچا فقط افسوس کا عنوان بن چکا تھا۔ ایسے نازک موقع پر حسن المآب ایڈوکیٹ نے جذبۂ ایثار، جراتِ ایمانی اور خلوصِ نیت سے معمور دل کے ساتھ وہ فیصلہ کیا، جو بڑے بڑے دعوے داروں کے بس کی بات نہیں ہوتا۔ اُنھوں نے اپنی ذاتی اراضی کا ایک اچھا خاصا حصہ فروخت کر کے مسجد کی تعمیر نو کا عزم کرلیا۔ اُن کا یہ اقدام محض مالی سرمایہ کاری نہ تھا، بل کہ اس میں اُن کے قلبی تعلق، روحانی وابستگی اور عقیدے کی گہرائی شامل تھی۔
اس عمل کا آغاز ہوا، تو ہر روز حسن المآب کی مشقت، جستجو اور فکر مندی میں اضافہ ہونے لگا۔ صبح کی اولین کرن سے لے کر شام کے دھندلکے تک اُن کا ذہن، قلب اور جسم اسی فکر میں مشغول رہتے۔ وہ مسجد کی بنیاد سے لے کر چھت کی آخری اینٹ تک ہر مرحلے پر نہ صرف موجود رہے، بل کہ تمام کام اپنی ذاتی نگرانی میں مکمل کروائے۔ اینٹ، گارے، سیمنٹ، ریت، لکڑی، ٹائل، رنگ، تذئین و آرایش کوئی بھی پہلو اُن کی توجہ سے محروم نہ رہا۔ اُن کا یہ کردار صرف ایک معمار کا نہیں، بل کہ ایک مہتمم، محافظ اور روحانی نگران کا تھا۔
وقت گزرتا گیا، تعمیر مکمل ہوتی گئی اور یوں مدین برکلے میں ایک ایسی عظیم الشان مسجد معرضِ وجود میں آئی، جو نہ صرف تعمیراتی حسن میں بے نظیر ہے، بل کہ روحانی جاذبیت کا بھی حسین مرقع ہے۔ اس مسجد کی عظمت فقط اس کے میناروں یا گنبدوں میں نہیں، بل کہ اُن آنکھوں کی نیند اور اُن ہاتھوں کے چھالوں میں پوشیدہ ہے جو حسن المآب ایڈوکیٹ نے اس کارِ خیر کے لیے قربان کیے۔
ایک محتاط تخمینے کے مطابق اب تک اس مسجد کی تعمیر پر 8 کروڑ سے زائد رقم صرف ہوچکی ہے، جب کہ بعض اہم تعمیراتی مراحل تاحال جاری ہیں، لیکن یہ رقم اگرچہ مالی اعتبار سے بڑی دکھائی دیتی ہے، مگر حقیقت میں یہ اس خلوص کی قیمت نہیں جو حسن المآب ایڈوکیٹ نے اس راہ میں نچھاور کیا۔ اُن کی خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ رقومات، فنڈز یا تعمیراتی تخمینے اسے احاطۂ تحریر میں نہیں لاسکتے۔
حسن المآب صاحب کی بے لوث خدمت اور خالص نیت نے عوام کے دلوں میں اُن کے لیے بے پایاں اعتماد پیدا کر دیا ہے۔ لوگ اپنے عطیات، صدقات اور فدیے نیک نیتی ساتھ اُن کے سپرد کرتے رہے۔ اُن کے ہاتھ کو امانت دار اور نیت کو پاکیزہ تسلیم کرتے ہوئے لوگوں نے دل کھول کر مسجد کی تعمیر میں اُن کا ساتھ دیا، مگر قیادت اور راہ نمائی کا بار بہ ہرحال انھی کے مضبوط کندھوں پر تھا۔ وہ محض چندہ جمع کرنے والے نہیں، بل کہ اسے امانت سمجھ کر دیانت سے خرچ کرنے والے فردِ فرید ہیں۔
مذکورہ مسجد محض اینٹوں، گارے اور سیمنٹ سے بنی عمارت نہیں، بل کہ حسن المآب ایڈوکیٹ کی محنت، خلوص اور عشقِ الٰہی کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ یہ عبادت گاہ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ جب انسان کا دل نیکی کی طرف مائل ہو، تو وسائل اور ذرائع خودبہ خود مہیا ہوتے ہیں۔ اُن کی ذات ایک ایسی روحانی قوت کا سرچشمہ بن چکی ہے، جو اہلِ مدین کے دلوں کو یک جا کرتی ہے۔
اگرچہ وہ ایک مصروف کاروباری شخصیت بھی ہیں اور معاشرتی سطح پر بے شمار دیگر خدمات انجام دے چکے ہیں، لیکن اُن کی ترجیحات میں مسجد کی تعمیر نے ایک ایسی مرکزیت اختیار کی کہ اُنھوں نے اپنی صحت، کاروبار اور دیگر معاملات کو ثانوی حیثیت دے دی۔ یہ وہ اخلاص ہے جو کسی ریاستی اعزاز، کسی تمغے یا سرکاری سند کا محتاج نہیں۔ اُن کے کردار کی تاب ناکی ہی اُن کا سب سے بڑا تعارف ہے۔
یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ حسن المآب ایڈوکیٹ کی مثال اس دورِ مادیت میں ایک نایاب جوہر کی سی ہے۔ وہ مردِ کارزار ہیں، جنھوں نے خاموشی سے، بہ غیر کسی نمود و نمایش کے، وہ کارنامہ انجام دیا ہے جو بڑے بڑے ادارے بھی انجام دینے سے قاصر رہے۔ اُن کا عمل، اُن کا کردار اور اُن کی خدمت مدین برکلے کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔
جاتے جاتے اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ حسن المآب صاحب کی مساعی کو قبول فرمائے، اُن کے اخلاص کو اُن کے لیے ذخیرۂ آخرت بنائے اور اُن کے جیسے خادمینِ ملت کو ہر معاشرے میں پیدا فرمائے، تاکہ ہماری بستیاں ایمان، ایثار اور اتحاد کے گلشن میں ڈھل سکیں، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے