(یہ تحریر دراصل ’’دی نیویارک ٹائمز‘‘ کے 18 جون 2025ء کے اداریے کا ترجمہ ہے)
ایران کے ایٹمی ہتھیار پوری دنیا کو غیر محفوظ بنا دیں گے۔ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ایران دنیا کو کم محفوظ بنا دے گا۔ وہ پہلے ہی سے غیر مستحکم مشرقِ وسطیٰ (Middle East) کو مزید غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار کردے گا۔ وہ بِلا شبہ اسرائیل کے وجود کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ وہ ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کے بعد دوسرے ممالک کو بھی انھیں حاصل کرنے پر آمادہ کرے گا، نتیجتاً عالمی سطح پر بہت گہرے جغرافیائی سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔
تاہم اب اسرائیل کے وزیرِ اعظم ’’بنجمن نیتن یاہو‘‘ (Benjamin Netanyahu) نے اپنے اتحادیوں کی حمایت کو مضبوط کیے بہ غیر ایران کی جوہری صلاحیت کو تباہ کرنے کے لیے کارروائی عمل میں لائی ہے۔ اس اقدام سے امریکہ کو ایک اور مشرقِ وسطیائی جنگ میں گھسیٹے جانے کا خطرہ لاحق ہوچکا ہے، جس میں بلا شک و شبہ امریکی جانیں داو پر لگ سکتی ہیں۔ اور دنیا یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے کہ صدر ٹرمپ آیندہ دنوں میں کیا فیصلہ کریں گے؟ تو یہ دراصل بالکل غلط سوال ہے۔
اگر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ امریکہ، اسرائیل کی ایران کے خلاف جنگ میں کود پڑیں، تو اگلا قدم روزِ روشن کی طرح عیاں ہے: امریکی کانگریس کو پہلے فوجی کارروائی کی اجازت دینا ہوگی۔ ہمارے (امریکہ) قوانین اس معاملے میں بالکل واضح ہیں۔ ایران پر کسی بھی بلاجواز امریکی حملے، جس میں زمین دوز بنکر شکن بم (Bunker Busters)بھی شامل ہو سکتے ہیں، کو پولیس کارروائی کہا جا سکتا ہے اور نہ خصوصی فوجی آپریشن، بل کہ یہ ایک جنگ ہوگی۔ اور ایسی جنگ کا اعلان کرنا نیتن یاہو کا اختیار ہے اور نہ ٹرمپ کا۔ امریکی آئین کے مطابق، صرف کانگریس (Congress) کو جنگ کا اعلان کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
1973ء میں جب امریکہ کے قانون سازوں نے ’’وار پاؤرز ریزولوشن‘‘ (War Powers Resolution) منظور کیا، تو اس کے ذریعے صدر کے جنگی اختیارات کو محدود کر دیا گیا، سوائے اُس صورت کے جب کوئی امریکہ پر حملہ آور ہوا ہو۔ موجودہ صورتِ حال تو ایسی نہیں۔ ایران نے بالکل امریکہ پر حملہ نہیں کیا۔ اس لیے یہ فیصلہ کرنے کے لیے وقت موجود ہے کہ کانگریس، جو عوام کی منتخب نمایندہ ہے، اس معاملے پر سیر حاصل گفت گو کرے اور اپنا فیصلہ دے۔ کانگریس کے کئی اراکین اس ذمے داری کو بہ خوبی سمجھتے نظر آتے ہیں۔
منگل کے روز ریپبلکن (Republican) رکن ’’تھامس میسی‘‘ (Thomas Massie) نے اپنے ڈیموکریٹ ساتھیوں کے ساتھ ایک قرارداد پیش کی، جس میں کہا گیا کہ ایران پر کسی بھی امریکی یرغل سے پہلے کانگریس کی باقاعدہ منظوری لازم ہوگی۔ اسی طرح سینیٹر ٹِم کین (Tim Kaine)، جو ڈیموکریٹ (Democrat) ہیں، نے پیر کے روز اس سے ملتی جلتی قرارداد سینیٹ میں پیش کی۔
یہ کوئی نئی بات تھوڑی ہے۔ 1941ء میں جاپان کے پرل ہاربر (Pearl Harbor) پر حملے کے اگلے ہی روز امریکی کانگریس نے جنگ میں کودنے کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔ ویت نام جنگ کے دوران میں بھی صدر لنڈن جانسن (Lyndon Johnson) نے 1964ء میں ’’گلف آف ٹونکن ریزولوشن‘‘ (Gulf of Tonkin Resolution) کانگریس سے منظور کروائی تھی۔ عراق میں 1991ء اور 2002ء میں فوجی کارروائی عمل میں لانے کے لیے بھی کانگریس نے باقاعدہ منظوری دی تھی۔ 2001ء میں افغانستان جنگ سے پہلے بھی یہی کچھ ہوا تھا۔
مذکورہ دونوں جماعتوں کے اراکین نے اس حوالے سے ہمیشہ اپنے آئینی اختیارات کا دفاع کیا ہے۔ 2013ء میں ’’سینیٹر ٹیڈ کروز‘‘ (Ted Cruz) نے کہا تھا کہ شام (Syria) پر حملہ کرنے کے لیے صدر اُوباما کو کانگریس کی اجازت درکار ہے۔ ’’یہ آئین کے خلاف ہوگا‘‘ اُنھوں نے کہا تھا۔
حالیہ عشروں میں امریکی صدور نے 2001ء اور 2002ء میں منظور شدہ جنگی اختیارات جنھیں ’’آتھورائزیشن فار یوز آف ملٹری فورس‘‘(Authorization for Use of Military Force, or A.U.M.F) کہا جاتا ہے، کی بنیاد پر دہشت گرد گروہوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کی، جیسے کہ صومالیہ، شام اور یمن میں…… لیکن ایران ایک خود مختار ریاست ہے، کوئی ’’دہشت گرد گروہ‘‘ نہیں۔ اس لیے اُن پرانی قراردادوں کو ایران پر حملے کے جواز کے طور پر استعمال کرنا بالکل درست نہیں ہوگا۔
یہ سوال کہ آیا امریکہ کو ایران کے خلاف جنگ میں شامل ہونا چاہیے یا نہیں؟ اس اداریے (Editorial)کا بنیادی موضوع نہیں۔ ہمیں اُن دلائل کا بہ خوبی علم ہے، جو اس جنگ کے حق میں دیے جاتے ہیں۔ مثلاً: یہ کہ ایران کی حکومت دنیا میں ایک انتہائی خطرناک قوت ہے، اور وہ جوہری ہتھیاروں کے حصول میں کافی حد تک آگے بڑھ چکی ہے۔
گذشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے ’’انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی‘‘ (International Atomic Energy Agency) نے کہا کہ ایران اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاو کے وعدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور بہ ظاہر شواہد کو چھپا رہا ہے، لیکن دوسری طرف حملے کے خلاف دلائل بھی کافی مضبوط ہیں۔ صرف ایک دہائی پہلے، ایران کی قیادت نے اوبامہ انتظامیہ سے جو معاہدہ کیا تھا، اُس میں معائنوں سمیت کئی شرائط شامل تھیں، جو ایران کو جوہری ہتھیاروں سے باز رکھنے کے لیے کافی شافی تھیں۔ آج ایران اُس وقت کے مقابلے میں کہیں زیادہ کم زور ہے، جزوی طور پر اسرائیل کی جانب سے ’’حماس‘‘ اور ’’حزب اللہ‘‘ جیسے ایرانی حمایتی گروہوں کی پسپائی کے باعث۔ ایسے میں، ٹرمپ انتظامیہ ایک بہتر معاہدہ حاصل کرسکتی ہے ۔
صاف بات یہ ہے کہ اس وقت ایران پر بمباری امریکہ کے لیے ایک ’’اختیاری جنگ‘‘ کا روپ دھارے گی۔ٹرمپ، جو اکثر بیرونی مداخلتوں کے خلاف رہے ہیں، بہ ظاہر یہ سمجھتے ہیں کہ اُنھوں نے مہینوں تک ایران سے سفارتی مذاکرات کی بات کی اور اسرائیل کے حملے کی دانش مندی پر سوال اُٹھایا۔ امریکی حملے کی تو بات ہی دور رہی۔ اُنھوں نے حال ہی میں کہا کہ ’’مَیں ایران کے ساتھ ایک معاہدہ چاہتا ہوں!‘‘ اگر اسرائیل نے جنگ شروع کی، تو اُنھوں نے کہا کہ ’’تو سب کچھ برباد ہو جائے گا۔‘‘ صرف پچھلے چند دنوں میں وہ اپنے موقف میں الجھن کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ یقینا اُن کا حق ہے کہ وہ اپنا موقف تبدیل کریں…… لیکن اگر وہ جنگ کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، تو اُنھیں امریکی عوام کے سامنے یہ مقدمہ پیش کرنا ہوگا کہ وہ کیوں اپنے خون اور وسائل کو داو پر لگانا چاہتے ہیں؟
اگر وہ اس گھمبیر معاملے کو کانگریس میں ووٹنگ کے لیے نہیں لاتے، تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ امریکی عوام ایک اور بیرونی جنگ کی حمایت نہیں کریں گے، خاص طور پر ایسی جنگ کی جس کا کوئی واضح مقصد یا مستقبل کا منصوبہ موجود نہ ہو۔
پچھلی دہائیوں میں ’’رجیم چینج‘‘ (Regime-Change) کی جنگوں کی تاریخ بالکل حوصلہ افزا نہیں رہی، خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں۔جنگ کا فیصلہ کب اور کیسے کیا جائے؟ یہ ہمیشہ نازک اور اہم سوال ہوتا ہے۔ اسی لیے امریکی آئین یہ اختیار کسی ایک فرد کو نہیں دیتا، حتیٰ کہ صدر کو بھی نہیں دیتا۔ یہ اختیار کلی طور پر عوام اور اُن کے منتخب نمایندوں کا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ اس اہم قومی بحث کا آغاز کیا جائے۔
