مجھے یاد ہے، تعلیم جب اتنی عام نہ تھی، تو توہمات کی بہتات تھی۔ لوگ فال اور تعویذ کے بڑے قائل تھے۔کئی نیم خواندہ گھروں میں ’’فال نامہ‘‘ کے نام سے پشتو میں لکھی ہوئی منظوم و منثور کتابیں تھیں، جو اوسط درجے کے کاغذ پرچھپی ہوتی تھیں۔ اُن رسالہ نما غیر مجلد کتابوں کی بڑی تکریم ہوتی تھی۔ خوب صورت کپڑے میں لپیٹ کر دوسری مذہبی کتابوں کے ساتھ رکھی جاتی تھی، لیکن بہت سے گھرانے اس کے خریدنے سے بھی عاجز تھے، تو وہ ضرورت کے وقت ہمسایوں سے مانگ کر لاتے۔
فارسی کی ضخیم کتابوں سے بھی فال نکالے جاتے تھے۔ اس مقصد کے لیے زیادہ تر شیخ سعدی کی ’’گلستان‘‘، ’’بوستان‘‘ اور جامی کی ’’یوسف زلیخا‘‘ اور فردوسی کی ’’جنگ نامہ‘‘ سے کام لیا جاتا تھا۔
مذکورہ بڑی کتابوں سے فال نکالنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ گھر کے کسی بچے سے کہا جاتا کہ اپنے ہاتھوں سے کتاب کہیں سے بھی کھولو۔ بچہ کتاب کھولتا، تو اُسی صفحہ سے سات صفحات آگے والا صفحہ کھولتے۔ بچے کو کہا جاتا کہ آنکھیں بند کرکے کسی بھی سطر پر انگلی رکھو۔ جس حرف پر بچے کی انگلی ٹھہرتی اُس لفظ کو فالنامہ می دیے گئے تفصیل سے ملاتے۔
اگر متذکرہ بالا دیوانوں سے فال نکالتے، تو جس شعر پر انگلی پڑتی، اُس کے معنی سے فال اخذ کرتے۔
بعض پروفیشنل خواتین فال نکالتی تھیں، جن کے ہاں ضرورت مند عورتیں جاتی تھیں۔ خصوصاً بچیوں کی شادی اور اُن کے مستقبل کی فکر مند مائیں ان باتوں پر یقین کرنا چاہتی تھیں کہ یہ رشتہ کیسا رہے گا؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
