نثار الحق صاحب کی یاد میں

Blogger Engineer Miraj Ahmad

ہر انسان دنیا میں ایک خاص مقصد کے تحت آتا ہے، لیکن کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے عمل، کردار اور اخلاص سے اس مقصد کو نہ صرف پہچانتی ہیں، بل کہ اُسے ایک مشن کی صورت میں اپنی زندگی کا نصب العین بنالیتی ہیں۔ پرنسپل نثار الحق صاحب بھی انھی نیک سیرت، درد مند دل رکھنے والی اور علم دوست شخصیات میں سے تھے، جنھوں نے اپنے علم، فہم، معاملہ فہمی اور اَن تھک محنت سے تعلیمی دنیا میں اَن مٹ نقوش چھوڑے۔
نثار الحق صاحب کا تعلق شالپین سوات کے ایک شریف اور تعلیم دوست خاندان سے تھا۔ بچپن ہی سے اُن میں علم سے محبت، ادب سے وابستگی اور نظم و ضبط کی جھلک نمایاں تھی۔ اُنھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم انتہائی محنت، ایمان داری اور شوق سے حاصل کی اور اعلا تعلیم میں بھی نمایاں کام یابیاں حاصل کیں۔ ان کا تعلیمی سفر صرف ڈگریوں تک محدود نہ تھا، بل کہ وہ حقیقی معنوں میں تعلیم کو انسان سازی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔
پرنسپل صاحب نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بہ طور معلم کیا۔ وہ ایک ایسے استاد تھے، جو کتاب سے زیادہ دل سے پڑھاتے تھے اور ہر طالب علم کی انفرادی شخصیت کو سمجھ کر اُس کی راہ نمائی کرتے تھے۔ اُن کی تدریس صرف معلومات کی منتقلی تک محدود نہ تھی، بل کہ وہ طلبہ میں تنقیدی سوچ، اخلاقی اقدار اور حب الوطنی کے جذبات بیدار کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اُنھوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ علم وہی کار آمد ہے، جو انسان کو بہتر بنائے، اُسے دوسروں کے کام آنے کے قابل بنائے۔
جناب نثار الحق صاحب نے پرنسپل کی حیثیت سے صرف انتظامی فرائض سرانجام نہیں دیے، بل کہ ایک قابل منتظم، مشفق راہ نما اور مثالی قائد کی حیثیت سے خود کو منوایا۔ اُن کی قیادت کی وجہ سے پہلے گورنمنٹ ہائی سکول گلی باغ اور پھر گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول خوازہ خیلہ علمی و اخلاقی بلندیوں کی طرف گام زن ہوئے۔ اُنھوں نے تعلیمی ماحول کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تربیت، طلبہ کی کردار سازی اور نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں میں توازن پیدا کیا۔
پرنسپل صاحب ہمیشہ اس بات کے قائل رہے کہ ایک تعلیمی ادارہ صرف امتحانات اور نتائج کا مرکز نہیں ہوتا، بل کہ وہ ایک ایسی نرسری ہے، جہاں قوم کے معماروں کو نہ صرف علم بل کہ اخلاق، تہذیب، برداشت اور احساسِ ذمے داری بھی سکھایا جاتا ہے۔
نثار الحق صاحب کی شخصیت کا ایک روشن پہلو ان کا انسانی ہم دردی پر مبنی مزاج تھا۔ وہ ہمیشہ دوسروں کی بات کو توجہ سے سنتے، غم گساری کرتے اور جہاں بھی ممکن ہوتا مدد کے لیے تیار رہتے۔ اُن کی سادگی، انکسار اور خوش اخلاقی نے ہر دل میں اُن کے لیے جگہ بنائی۔ ادارے کے ہر فرد سے اُن کا رویہ مشفقانہ تھا، چاہے وہ کوئی دربان ہو یا سینئر استاد۔
زندگی کی یہ داستان اختتام کو بھی پہنچی۔ پرنسپل نثار الحق صاحب گذشتہ دن خنجراب میں ٹریفک حادثے میں شہید ہوئے۔ نمازِ جنازہ گورنمنٹ ہائی سکول شالپین کے گراؤنڈ میں ہزاروں اشک بار آنکھوں کے سامنے ادا کیا گیا۔ یہ صرف ایک شخص کی موت نہیں تھی، بل کہ ایک پورے عہد، ایک وژن اور ایک خواب کی تکمیل کا وقت تھا۔ اُن کے دنیا سے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے، وہ شاید کبھی پُر نہ ہوسکے۔
ان کی وفات پر ادارے کے اساتذہ، طلبہ، شاگرد اور اہلِ علاقہ نے جس دکھ اور صدمے کا اظہار کیا، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ صرف ایک تعلیمی منتظم نہیں تھے، بل کہ ایک دلوں میں بسنے والے راہ نما تھے ۔ اُن کی یادیں، باتیں، دعائیں اور اُن کے سکھائے گئے اُصول ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ نثار الحق صاحب کی مغفرت فرمائے، اُن کے درجات بلند کرے، اُنھیں جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے اور اُن کے اہلِ خانہ کو صبرِ جمیل عطا کرے ۔
پرنسپل صاحب (مرحوم) کی زندگی ہم سب کے لیے ایک مثال ہے کہ کیسے اخلاص، دیانت اور علم کے ذریعے معاشرے میں روشنی پھیلائی جا سکتی ہے۔
’’وہ چراغ جو اندھیروں میں جلتے رہے، اب بجھ چکے، مگر اُن کی روشنی رہتی دنیا تک باقی رہے گی۔‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے