(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
1960ء کی دہائی کے پہلے نصف میں، ریاستِ سوات کے حکم ران نے فیصلہ کیا کہ دور دراز علاقوں میں ابتدائی طبی امداد کی سہولت فراہم کی جائے۔ اس منصوبے کے تحت دو کمروں پر مشتمل ایک ڈسپنسری بنائی جانی تھی، جس کے آگے اور پیچھے ایک برآمدہ ہوتا۔ یہ کام مقامی لوگوں کے ذریعے اور علاقے کے تحصیل دار کی نگرانی میں ہونا تھا۔ پیشہ ور عملہ، لکڑی اور شیٹ ریاست کی جانب سے فراہم کی جانی تھیں۔ یہ منصوبہ صرف تحصیل پٹن کوہستان تک محدود تھا، جو اَب دو اضلاع میں منقسم ہے۔ مجھے اور بہادر زمان کو دبیر روانہ ہونے کا حکم دیا گیا۔ ہمیں زمین پر نقشہ ڈالنے کے لیے ایک چونے کی بوری اور تقریباً 100 لکڑی کی میخیں فراہم کی گئیں۔ محکمہ کی پک اَپ نے ہمیں کوہستان کے مقام رانولیا پر اُتارا۔ دو مقامی پولیس اہل کار پہلے سے وہاں موجود تھے۔ انھوں نے ہمارے سامان کو اٹھایا۔ ہم نے تیز بہاو والی دبیر ندی کو عبور کیا، جو اسی مقام پر عظیم دریائے سندھ کے ساتھ ملتی ہے۔
اس نالے (خوڑ) پر لکڑی کی ایک شہ تیر ڈالی گئی تھی، جو پل کا کام دے رہی تھی۔ پولیس اہل کار بہ آسانی اس پر چلتے گئے اور ندی یوں پار کی جیسے کہ کسی زمین پر چل رہے ہوں، لیکن میرے اور بہادر زمان کے لیے یہ پلِ صراط جیسا تھا۔ ہم شہ تیر پر بیٹھ گئے اور دونوں طرف اپنے پاؤں لٹکا کر ندی کو رینگتے ہوئے عبور کیا۔ مقامی لوگ ہماری حالت دیکھ کر محظوظ ہو رہے تھے اور ہنس بھی رہے تھے۔
ہم تحصیل کی عمارت پہنچے، جو تحصیل دار کا حُجرہ بھی تھا، لیکن وہ اُس وقت موجود نہیں تھے۔ وہ ایک نزدیکی گاؤں میں ایک تنازع حل کرنے گئے تھے۔ مَیں اور بہادر زمان بہت تھکے ہوئے اور تحصیل دار کی غیر موجودگی سے مایوس بھی تھے۔کچھ وقت بعد، سادہ لباس میں ایک شخص کچھ مسلح افراد کے ہم راہ حجرے میں داخل ہوا۔ اس نے ہم سے ہاتھ ملایا، اور بغیر کچھ کہے مقامی بولی میں ان سے بات کرنے لگا۔
میرے ساتھی کا پارہ چڑھ گیا اور اس نے پوچھا کہ تحصیل دار کہاں ہے؟ اُس شخص نے جواب دیا کہ ’’مَیں ہی ہوں جسے آپ لوگ ڈھونڈ رہے ہیں۔‘‘ ہم نے خود کو اس سے متعارف کروایا۔ اس کا نام فیلقوس خان تھا اور چکیسر، شانگلہ سے تعلق تھا۔ جب مَیں نے اس سے اپنے والد کا ذکر کیا، تو وہ فوراً اٹھے، مجھے گلے لگایا اور ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہنے لگا: ’’اوہ، تم تو میرے بھتیجے ہو۔ تمھارے والد میرے بھائی جیسے ہیں۔‘‘ اس کا رویہ بدل گیا تھا۔ اس نے ہمیں بڑی گرم جوشی سے خوش آمدید کہا۔ اس شام کو ہمارے لیے پُر تکلف کھانے کا انتظام کیا گیا۔ اگلی صبح کے سفر کی تیاری کے لیے ہم جلدی ہی سوگئے۔
ایک بھرپور ناشتے کے بعد، جس میں روسٹ مرغی اور خالص دودھ کی چائے شامل تھی، ہم دبیر کے لیے روانہ ہوگئے۔ وہاں کے تحصیل دار محمد زبیر خان تھے جو غوَریجہ، سوات سے تعلق رکھتے تھے اور بعد میں ریاستی افواج سے صوبے دار میجر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ وہ بھی میرے والد کے دوست تھے اور ہم پر بے حد مہربان تھے۔ اپنا مشن مکمل کرنے کے بعد، ہم نے ان سے رانولیا واپس جانے کی اجازت طلب کی۔ انھوں نے ہمیں روکنے کی بہت کوشش کی اور کہا کہ ہمیں جنگلی گائے اور مارخور کا شکار کروائیں گے، لیکن ہم نے منع کیا اور رانولیا واپس چلے گئے۔ ایک اور رات دوستانہ ماحول میں فیلقوس خان کے ساتھ گزار کر ہم اگلے دن سیدو شریف واپس آگئے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
