صحبت لالا: ایک زبردست منتظم

Blogger Fazal Raziq Shahaab

صحبت لالا سیدو شریف کے رہنے والے تھے۔ مرغزار روڈ پر کام کرنے والے روڈ گینگ کے ’’میٹ‘‘ یا انچارج تھے۔ نہایت مستعد، باتونی اور ہوش یار شخص تھے۔ بولتے تو مشین گن کی رفتار سے۔ مجھے تو اکثر پلے بھی نہ پڑتا کہ کیا فرما رہے ہیں؟ سب سے زیادہ مجھے اُن کی عمر پر حیرت ہوتی ہے۔شاید یہ ایک سال آگے چل کر دو سال پیچھے چلے جاتے تھے۔
1958ء کی بات ہے، مَیں اور محمد امین فاروقی سائیکلوں پر شالپین جانے کے لیے افسر آباد سے نکلے۔ اُس وقت ہم نے میٹرک کا امتحان دیا تھا، مگر نتیجے کا ابھی انتظار تھا۔ محمد گل شہید کے قریب سڑک کے کنارے کچھ لوگ کھڑے تھے۔ ایک آدمی کرسی پر بیٹھا سامنے میز پر پڑے ٹکٹ بک سے ٹکٹیں دے رہا تھا۔ پتا لگایا، تو معلوم ہوا کہ یہاں سے بالائی سوات کو بس چلتی ہے اور یہ منشی ہے اس اڈے کا۔اُس کا نام صحبت ہے اور سیدو وال ہے، تو اُس وقت بھی کافی عمر کے لگ رہے تھے۔
بہ ہر حال بندے تھے کام کے۔ مجھے نہیں معلوم یہ کیسے ہائی وے ڈویژن سوات میں بھرتی ہوئے؟ کیوں کہ مَیں بونیر میں تھا۔ 1984ء میں میرا تبادلہ سوات ہوگیا، تو یہ میرے سیکشن میں ڈیوٹی پر تھے۔ مجھے حیرت ہوئی، مگر سوچا مجھے کیا۔ بس آدمی کام کا ہونا چاہیے۔ رفتہ دفتہ مجھ پر اُن کی خوبیاں کھلنے لگیں۔ زبردست منتظم اور ڈیوٹی میں ریگولر۔ ماتحت کولیگوں سے کام لینا اُن کے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ 1985ء کے سیلاب میں مجھے اُن کی اعانت حاصل تھی۔ ہم دریائے سوات کے ساتھ نبرد آزما تھے۔ مذکورہ سیلاب میں دوستوں کے ساتھ لی جانے والی تصویر اس تحریر کا حصہ ہے۔
صحبت لالا کا تعلق سیدو شریف کے ایک جانے پہچانے خاندان سے تھا، جس کے اکثر افراد ریاستی دور میں اعلا عہدوں پر فائز تھے۔ اعلا تعلیم یافتہ لوگوں میں اکثریت اُن کی تھی۔ موقع شناس اور وقت کی نبض پر پوری گرفت، ہوا کا رُخ پہچانتے تھے۔
صحبت لالا کے جوہر کا ذکر آیا، تو مجھے ضیاء الحق کا ریفرینڈم یاد آگیا۔ ہماری جس پولنگ سٹیشن پر ڈیوٹی تھی، وہاں پر ٹرن آوٹ 85 فی صد رہا اور سب کے سب مثبت ووٹ تھے…… مگر وہاں کے اے سی صاحب مصر تھے کہ کم ازکم 90 فی صد کروالیں۔ہم سوچ میں پڑگئے کہ اب کیا کریں؟ صحبت لالا ہمارے ساتھ گئے تھے۔ اُنھوں نے بیلٹ پیپر کا پیکٹ لیا اور جلدی جلدی کوئی 80 پرچیوں پر انگوٹھے کے نشان لگائے۔ کاؤنٹر فائل پر ہم نے غیر پول شدہ ووٹر لسٹ سے نام وغیرہ درج کردیے۔
اس طرح ایک اور موقع پر بھی صحبت لالا کی ذہانت ہمارے کام آئی۔ مَیں سپل بانڈئی روڈ کا سروے کر رہا تھا۔ شہزادہ اسفندیار باچا (مرحوم) نے اس کی پختگی کے لیے فنڈ منظور کروایا تھا۔ تقریباً عصر کے قریب ہم گاؤں تک پہنچے۔ مَیں اور میرے ساتھی بھوک سے نڈھال ہورہے تھے۔ صحبت لالا نے کہا تم لوگ میرا انتظار کرو، مَیں کچھ کرتا ہوں۔ وہ گاؤں کی طرف گئے۔ کچھ دیر بعد وہ گاؤں ہی کے ایک معزز شخص کے ساتھ واپس آئے۔ وہ ہمیں اپنے حجرے لے گئے اور مختصر وقت میں نہایت پُرتکلف کھانے کا اہتمام کیا۔
وہ صاحب جو ہمیں لینے آئے تھے، معراج باچا اُن کا نام تھا اور میرے بابا کے دوست تھے۔ یہ بات تو اُنھوں نے بعد میں بتائی۔ مجھ سے شکوہ بھی کیا کہ تم بہ راہِ راست ہمارے ہاں کیوں نہیں آئے؟
پھر میرا تبادلہ بلڈنگ ڈویژن میں ہوگیا اور مَیں صحبت لالا سے بچھڑ گیا۔ پھر وقت کے ساتھ پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہ گیا۔ مجھے نہیں معلوم وہ کب اور کس عمر میں رہٹائر ہوئے، مگر آدمی تھے کمال کے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے