زانگوٹئی (اسریت کی برقی ڈولی)

Journalist Comrade Amjad Ali Sahaab's Photography

ایس پی ایس ٹریکنگ کلب کا حصہ بننے سے پہلے مَیں کئی ’’فوبیاز‘‘ (Phobias) کا شکار تھا۔ اس کی وجہ مجھے بعد میں معلوم ہوئی کہ میری شخصیت پر میرے والد (مرحوم) کا اثر کم تھا۔ مَیں چوں کہ والدہ محترمہ کے ساتھ زیادہ ’’اٹیچڈ‘‘ تھا، اس لیے اُن کی تمام خصلتیں غیر شعوری طور پر میری ذات کا حصہ بن گئی تھیں۔ مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق والدہ محترمہ ’’ٹڈے‘‘ سے ڈرتی تھی، سو مَیں بھی ڈرتا تھا۔ وہ چوہے کو دیکھتے ہی چیخ مارتی تھیں، مجھ میں چوں کہ اُن کا خون دوڑتا تھا، سو میری بھی چوہے کو دیکھتے ہی چیخ نکل جایا کرتی تھی۔
القصہ، دیگر کئی ’’فوبیاز‘‘ کے ساتھ ساتھ "Acrophobia” بھی مجھے لاحق تھا، جسے پتا نہیں کس کے منھ سے "Heigtophobia” سنا تھا اور ایک عرصے تک اسے موخر الذکر نام ہی سے پکارتا تھا۔ یہ فوبیا بھی ایک طرح سے موروثی تھا، یعنی یہ بھی مجھے والدہ محترمہ سے اُن کی صحبت کی بہ دولت ملا تھا۔
غالباً 2013ء کو ’’پالس ناران ٹریک‘‘ (Palas-Naran Trek) میں ایس پی ایس ٹریکنگ کلب کا باقاعدہ حصہ بنتے ہوئے کئی فوبیاز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ’’خدا حافظ‘‘ کَہ دیا، جن میں ایک "Acrophobia” بھی تھا۔
’’پالس ناران ٹریک‘‘ سے پہلے اگر موضع ’’غوریجو‘‘ جاتے ہوئے فضاگٹ کی طرف سے ’’برقی ڈولی‘‘ (کیبل کار) میں بیٹھتا، تو دریا پار کرتے وقت شش کلموں میں سے جتنے اَزبر ہوتے، زیرِ لب دہراتا جاتا اور ’’پنزہ پاوہ‘‘ (بیس آنے، جو ایک طرح سے 90ء کی دہائی کا ’’مشہور و معروف صدقہ‘‘ تھا) اللہ کے نام پر دینے کا وعدہ کرتا۔ یہ الگ بات ہے کہ غوریجو کی سرزمین پر پاؤں رکھتے ہی صدقے والی بات بھی آئی گئی ہوجاتی۔ کیوں کہ پیسے جیب میں ہوتے، تو صدقہ کرتا نا……!
آمدم برسرِ مطلب! ہمارا آج کا موضوع ’’زانگوٹئی‘‘ ہے، جسے ’’برقی ڈولی‘‘ کَہ لیں یا پھر گورے کی زبان میں ’’کیبل کار‘‘ (Cable Car)
تصویر مَیں نظر آنے والی اس ڈولی کے بارے میں یکم جون 2022ء کو مَیں نے فیس بُک پر ایک پوسٹ دی تھی، جس کا مقصد تصویر ہی میں نظر آنے والی ’’برقی ڈولی‘‘ کو بنانے والے مقامی انجینئر کو خراجِ تحسین پیش کرنا تھا۔ موصوف کا جگاڑ دیکھنے لائق ہے۔ اُس نے اُس وقت ایک ’’پاسو‘‘ نامی (موٹر کار) کی مدد سے یہ ’’برقی ڈولی‘‘ فعال بنائی تھی۔
یکم جون 2022ء والی میری فیس بُک کی پوسٹ:
’’سرِ دست جگر مراد آبادی کا اِک شعر ملاحظہ ہو:
آ کہ تجھ بن اس طرح اے دوست گھبراتا ہوں میں
جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں
’’اسریت‘‘ (سوات) کی اِس ’’برقی ڈولی‘‘ (کیبل کار) میں اُس دوست کا ساتھ ہو، جس کے بغیر گھبراہٹ سی ہوتی ہے اور جس کے بغیر ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں، تو بات بن جائے۔
یہ ڈولی کیدام (سوات) کے ایک مقامی انجینئر واجد علی کی تخلیقی صلاحیتوں کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ کالام جاتے سمے اس مقام پر چند لمحے نہ بِتانا ناشکری تصور ہوگی۔ ڈولی جس مقام پر قائم ہے، یہاں ایک چھوٹا سا بازار بھی ہے۔ بازار کی چائے اور پکوڑے سفر کی تھکن اُتارنے کے لیے گویا ’’مجرب نسخہ‘‘ ہیں۔دریا پار دِکھنے والی چھوٹی سی آبشار اور دریا کا کَنارا دونوں مل کر احمد فراز کا یہ مصرع بے طرح یاد دِلاتے ہیں کہ
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے