قربانی: روح اطاعت یا رسم گوشت خوری؟

Blogger Sami Khan Torwali

ہر سال جب ذی الحجہ کی ساعتیں اپنے نور اور برکتوں کے ساتھ نمودار ہوتی ہیں، فضائیں ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘ کی صداؤں سے گونجنے لگتی ہیں۔ ایامِ حج کے روح پرور مناظر قلوب کو جذبۂ بندگی سے لب ریز کر دیتے ہیں۔ انھی مبارک دنوں میں مسلمانوں کو قربانی کا عظیم فریضہ ادا کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوتی ہے۔
قربانی محض ایک جانور ذبح کرنے کا نام نہیں، بل کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اُس لازوال اطاعت اور قربانی کی یادگار ہے، جس میں ایک باپ نے اپنے جگر گوشے کو ربِ کائنات کے حکم پر نچھاور کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک بیٹے نے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے رضائے الٰہی کے سامنے خود کو سپرد کر دیا۔
یہ واقعہ نہ صرف تاریخِ انسانیت کا ایک سنہری باب ہے، بل کہ ہر صاحبِ ایمان کے لیے اطاعت، تقوا، خلوص اور ایثار کا عملی درس بھی ہے۔ قرآنِ کریم میں سورۂ الحج کی آیت 37 میں واضح طور پر فرمایا گیا: (ترجمہ) اللہ کو نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ خون، بل کہ اسے تمھارا تقوا پہنچتا ہے۔
یہ آیتِ کریمہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ قربانی کی اصل روح جانور کا گوشت یا خون نہیں، بل کہ بندے کا تقوا، اخلاص اور فرماں برداری ہے۔
تاہم عصرِ حاضر میں قربانی کے اس عظیم جذبے کو محدود کرکے محض گوشت خوری کی رسم میں بدل دیا گیا ہے۔ ہم میں سے اکثر افراد قربانی کرتے وقت اس نیت سے جانور ذبح کرتے ہیں کہ ہمارے گھر میں کئی دن گوشت کا ذخیرہ ہو جائے، فریزر بھر جائے، دعوتیں ہو جائیں اور ہم رشتے داروں اور دوستوں میں اپنی سخاوت کے چرچے کرسکیں۔
سوشل میڈیا پر تصویریں لگا کر جانور کی قیمت، سائز اور نسل پر مباحثے ہوتے ہیں۔ گویا عبادت کی روح کہیں کھوگئی ہے اور نمایش و تفاخر نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
حالاں کہ اگر کوئی شخص صاحبِ حیثیت ہے اور مہینے میں دو چار بار بازار سے تازہ گوشت خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے، تو اُس کے لیے زیادہ باعثِ ثواب اور افضل عمل یہ ہے کہ وہ قربانی کا بیش تر یا تمام گوشت غریبوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کر دے۔ وہ لوگ جو مہینوں، بل کہ سال بھر میں ایک بار بھی گوشت نہیں کھاتے، اُن کے دسترخوان پر قربانی کے دن اگر گوشت کی نعمت آجائے، تو یہ عبادت کا حقیقی مقصد پورا ہوتا ہے۔
حضرت ابراہیم کی قربانی کا جو واقعہ ہمیں قرآن و سنت میں ملتا ہے، وہ محض ایک جانور کے ذبح کرنے کا واقعہ نہیں، بل کہ وہ ایک مکمل طرزِ زندگی کی نمایندگی کرتا ہے، جس کی بنیاد اطاعت، اخلاص، ایثار اور قربِ الٰہی پر رکھی گئی ہے۔ حضرت ابراہیم نے کوئی جانور ذبح نہیں کیا تھا، بل کہ وہ اپنے بیٹے کو رب کے حضور پیش کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے، اور حضرت اسماعیل، جنھوں نے یہ عظیم مقام پایا کہ اُنھیں ذبیح اللہ کہا گیا، اُنھوں نے اپنے باپ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر رضائے الٰہی کے لیے خود کو پیش کر دیا۔
آج جب ہم قربانی کے جانور خریدتے ہیں، تو کیا ہمارے دل میں وہی جذبۂ اطاعت موجود ہوتا ہے، یا ہم اسے محض ایک معاشرتی رسم اور مذہبی روایت سمجھ کر ادا کرتے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ جانور کے ذبح کرنے سے پہلے ہمارے دل کا تزکیہ ہوا ہے یا نہیں؟ کیا ہم نے کبھی قربانی کے بعد اپنے نفس کی خواہشات پر چھری پھیری ہے؟
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جو نہ صرف انفرادی اصلاح پر زور دیتا ہے، بل کہ اجتماعی بھلائی اور سماجی عدل کو بھی اپنا لازمی عنصر گردانتا ہے۔ قربانی کا عمل بھی اسی سماجی عدل اور خیر کے پیغام کا مظہر ہے۔ جب ایک صاحبِ حیثیت شخص قربانی کا گوشت ان افراد میں تقسیم کرتا ہے جو سارا سال گوشت جیسی نعمت سے محروم رہتے ہیں، تو وہ نہ صرف ان کی جسمانی حاجات پوری کرتا ہے، بلکہ ان کے دلوں میں احساسِ شکر پیدا کرتا ہے۔
اگر ہم غور کریں، تو یہ گوشت اُن لوگوں کا حق ہے جن کی زندگی فاقوں میں گزرتی ہے، جن کے بچوں کی آنکھوں نے کبھی سالن میں گوشت تیرتے نہیں دیکھا، جن کی بوڑھی ماں صرف قربانی کے دنوں میں اپنی زندگی میں گوشت کے ذائقے سے آشنا ہوتی ہے، تو اگر ہم اس گوشت کو اُن کے ساتھ بانٹ دیں، تو نہ صرف ہم ایک عبادت کا حق ادا کریں گے، بل کہ ایک معاشرتی فریضہ بھی پورا کریں گے۔
شریعت میں قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم فرض نہیں۔ یہ محض مستحب اور مستحسن عمل ہے، یعنی ایک اچھا اور پسندیدہ عمل۔ اگر کوئی شخص چاہے، تو پورا گوشت خود بھی رکھ سکتا ہے اور اگر چاہے، تو سارا کا سارا صدقہ بھی کرسکتا ہے۔
صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی اس بارے میں مختلف احوال منقول ہیں۔ بعض صحابہ نے تمام گوشت صدقہ کر دیا اور بعض نے اپنے گھر میں بھی رکھا…… لیکن اصل چیز نیت اور ضرورت کی مطابقت ہے۔ اگر کوئی شخص واقعی مستحق ہے، اُس کے گھر میں گوشت کی قلت ہے، تو اُس کے لیے اپنے لیے گوشت رکھنا بالکل درست ہے، لیکن اگر کوئی صاحبِ استطاعت ہے، بازار سے مہینے میں کئی بار گوشت خرید سکتا ہے، دعوتیں کرسکتا ہے، مہنگے ہوٹلوں میں کھانا کھا سکتا ہے، تو اُس کے لیے بہتر عمل یہی ہے کہ وہ قربانی کا زیادہ سے زیادہ گوشت مستحقین کو دے۔
ہمارے معاشرے میں لاکھوں افراد ایسے ہیں، جن کے بچے گوشت کھانے کی خواہش میں ماں کے چہرے کو تکتے رہتے ہیں، جو قصائی کی دکان کے سامنے سے گزرتے وقت اپنی نگاہیں پھیر لیتے ہیں کہ دل میں کوئی حسرت نہ جاگ اُٹھے، جو عید کے دن بھی سوکھی روٹی اور پانی پر اکتفا کرتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی صاحبِ نصاب شخص قربانی کے گوشت سے ان کے دستر خوان کو زینت بخشے، تو اس سے بڑی عبادت کیا ہوسکتی ہے؟
عیدالاضحیٰ کے موقع پر ہمیں چاہیے کہ ہم صرف اپنے فریزر کے بارے میں نہ سوچیں، بل کہ اُن خالی برتنوں کے بارے میں بھی غور کریں، جو سارا سال ایک بہتر کھانے کے انتظار میں رہتے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کی خوشیوں کے ساتھ ان بچوں کی خوشیوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے، جو عید پر گوشت کی ایک ہڈی پاکر بھی آنکھوں میں چمک لیے بیٹھ جاتے ہیں۔
آج کل قربانی کے عمل کو جس طرح سوشل میڈیا پر دکھایا جاتا ہے، وہ بھی ایک قابلِ افسوس رجحان بن چکا ہے۔ جانور کی قیمت، اس کی نسل، اس کا وزن اور اس کی تصویر کشی کو عبادت کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔
قربانی کے بعد گوشت کے تھالوں کی تصویریں، دعوتوں کی جھلکیاں اور خوشی کے مظاہرے سوشل میڈیا پر نشر ہوتے ہیں، جب کہ عبادت کے اصل راز خلوص، خشیت، تقوا اور رازداری کہیں دب کر رہ جاتے ہیں۔
کیا حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کی قربانی کی خبر دنیا کو مشتہر کی تھی؟ کیا حضرت اسماعیل نے اپنی اطاعت کا اعلان قریہ قریہ کیا تھا؟ نہیں……! بل کہ اُنھوں نے خاموشی، عاجزی اور سراپا تسلیم کے ساتھ اپنی بندگی کا اظہار کیا۔ پس ہمیں بھی چاہیے کہ اپنی عبادات کو دکھاوے سے بچائیں اور ان میں خلوص اور رازداری کو داخل کریں۔
قربانی محض ایک عبادت نہیں، بل کہ ایک تربیت ہے۔ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے اپنے محبوب ترین مال کو بھی قربان کر دینا عین بندگی ہے۔ یہ ہمیں ایثار، ہم دردی، اخوت اور سماجی عدل کا درس دیتی ہے۔ اگر ہم واقعی صاحبِ حیثیت ہیں، تو ہمیں چاہیے کہ قربانی کا گوشت اپنے ضرورت مند بھائیوں میں تقسیم کریں، اُن کو وہ خوشی عطا کریں، جس سے وہ سال بھر محروم رہتے ہیں۔
اپنے لیے دو چار کلو گوشت رکھیں، اپنے بچوں کے لیے ایک دو ہڈیوں کا سالن بنائیں، لیکن اگر اللہ نے آپ کو نعمتوں سے نوازا ہے، تو باقی سب کچھ اُن لوگوں کے حوالے کر دیں، جو آپ کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔
یہی عبادت کی روح ہے، یہی قربانی کی حقیقت ہے اور یہی انسانیت کی معراج ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے