صحت کا شعبہ کسی بھی مہذب معاشرے میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ سرکاری ہسپتال عام آدمی کی آخری اُمید ہوتے ہیں، خاص طور پر اُن علاقوں میں جہاں نجی شعبہ یا بڑی طبی سہولیات کا فقدان ہو۔
سوات جیسے پہاڑی وادی میں جہاں ایک ہی مرکزی ہسپتال عوام کی خدمت پر مامور ہے، وہاں ’’خیبرپختونخوا میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشنز ریفارمز ایکٹ 2015ء‘‘ (جسے ’’ایم ٹی آئی ایکٹ‘‘ کہا جاتا ہے) کا نفاذ محض ایک انتظامی تبدیلی نہیں، بل کہ عوامی صحت پر ایک سنگین وار ہے۔
٭ ایم ٹی آئی ایکٹ، پس منظر اور محرکات:۔ یہ متنازع قانون 2015ء میں اُس وقت کے وزیرِ صحت شہرام ترکئی نے ’’نوشیروان برکی‘‘ کے ایما پر منظور کروایا۔ واضح رہے کہ برکی صاحب، عمران خان کے قریبی رشتہ دار ہیں اور امریکہ میں مقیم ہیں۔
یوں دعوا کیا گیا کہ اس قانون کے ذریعے صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں اصلاحات لائی جائیں گی، مگر جو کچھ سامنے آیا وہ اصلاحات نہیں، بل کہ مراعات یافتہ طبقے کے لیے ایک نیا طبی نظام ہے۔
٭ سرکاری اور ایم ٹی آئی ہسپتال میں فرق:۔ سرکاری ہسپتالوں کا نظم محکمۂ صحت، سیکرٹری ہیلتھ، ڈی جی ہیلتھ اور ضلعی انتظامیہ کی نگرانی میں چلتا ہے۔
ایم ٹی آئی ہسپتالوں میں ایک ’’بورڈ آف گورنرز‘‘ تعینات ہوتا ہے، جو مکمل طور پر خود مختار ہے۔ یہ بورڈ اکثر سیاسی وابستگی رکھنے والے افراد پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کے فیصلے کسی عدالت میں بھی چیلنج نہیں کیے جا سکتے۔
سرکاری نظام میں بھرتیاں ’’ایٹا‘‘ یا ’’پبلک سروس کمیشن‘‘ کے ذریعے ہوتی ہیں، جب کہ ایم ٹی آئی اداروں میں بھرتیاں اکثر ذاتی سفارشات اور اقربا پروری کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔ اس سے نہ صرف میرٹ کا قتل ہوتا ہے، بل کہ قابل افراد کی حوصلہ شکنی بھی۔
سرکاری ملازمین مستقل بنیادوں پر تعینات ہوتے ہیں۔ اُنھیں پنشن، فنڈ اور ملازمت کا تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ایم ٹی آئی میں ملازمین تین سالہ کنٹریکٹ پر رکھے جاتے ہیں، جنھیں کسی وقت بھی فارغ کیا جا سکتا ہے۔
سرکاری ہسپتالوں میں ہر مریض کو 1 0روپے کی چھٹی کے عوض دیکھا جاتا ہے، جب کہ ایم ٹی آئی ہسپتالوں میں صبح کے وقت محدود چھٹیاں دی جاتی ہیں اور مریضوں کو دیکھنا ڈاکٹر کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے۔
دوپہر کے بعد سرکاری ہسپتالوں میں بھی مریضوں کا مفت علاج جاری رہتا ہے، مگر ایم ٹی آئی میں 1000 روپے فیس لاگو کی جاتی ہے، جس میں سے 800 روپے ڈاکٹر اور 200 ہسپتال انتظامیہ کو جاتے ہیں۔
سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو 24 گھنٹے داخل کیا جا سکتا ہے، چاہے بیڈ ہوں یا نہ ہوں۔ ایم ٹی آئی میں محدود اوقات اور محدود بیڈز کی پالیسی ہے، جس کے باعث اکثر مریضوں کو دوسرے شہروں (مردان یا پشاور) ریفر کیا جاتا ہے ۔
سرکاری ہسپتالوں میں خون، سی ٹی سکین اور ایم آر آئی جیسے بنیادی ٹیسٹوں کی فیس عام آدمی کی پہنچ میں ہوتی ہے۔ ایم ٹی آئی اداروں میں یہی ٹیسٹ تین گنا مہنگے ہوتے ہیں۔ مثلاً:
٭ خون کا ٹیسٹ:۔ 100 روپے (سرکاری) بہ مقابلہ 300 روپے (ایم ٹی آئی)۔
٭ سی ٹی سکین:۔ 1500 روپے (سرکاری) بہ مقابلہ 5000 روپے (ایم ٹی آئی)۔
٭ ایم آر آئی:۔ 2000 روپے (سرکاری) بہ مقابلہ 6000 روپے (ایم ٹی آئی)۔
ایم ٹی آئی نظام میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ سپیشلسٹ ڈاکٹر دوپہر کے وقت پرائیویٹ کلینک نہیں چلاسکیں گے۔ حقیقت میں، یہ صرف ڈاکٹر کی مرضی پر منحصر ہے۔ اگر وہ ہسپتال ہی میں مریض دیکھنا چاہیں، تو وہ مفت نہیں، بل کہ مبلغ 1000 روپے فیس لیں گے۔
قارئین! ایم ٹی آئی ایکٹ درحقیقت عوام کو صحت کے حق سے محروم کرنے کا نیا حربہ ہے۔
یہ قانون پس ماندہ اضلاع کے عوام کو بنیادی علاج معالجے سے بھی محروم کر دے گا۔ جہاں پہلے مفت سہولیات دست یاب تھیں، اب پیسوں کی بنیاد پر صحت دی جائے گی۔
پشاور میں تو کم از کم تین بڑے ہسپتال ہیں، مگر سوات میں صرف ایک مرکزی ہسپتال ہے۔ اگر وہاں ایم ٹی آئی کا نظام نافذ ہوا، تو زیادہ تر مریضوں کو مردان یا پشاور ریفر کیا جائے گا۔
تو کیا سوات کے عوام اتنے خوش حال ہیں کہ سفر اور علاج دونوں کا بوجھ برداشت کرسکیں؟
قارئین! اگر آپ چاہتے ہیں کہ صحتِ عامہ سب کے لیے برابر دست یاب ہو، تو ایم ٹی آئی نظام کو مسترد کریں۔
اگر آپ میرٹ پر بھرتی، عدالتی نگرانی، اور مفت علاج چاہتے ہیں، تو سرکاری نظام کو بچانا ہوگا۔
یہ قانون صرف ایک انتظامی تبدیلی نہیں، بل کہ آپ کے بچوں، بزرگوں اور کم زور طبقے کے لیے صحت کا دروازہ بند کرنے کی ایک سازش ہے ۔
اب بھی وقت ہے: سوات والو، ہوش یار ہو جاؤ۔ ورنہ بعد میں کفِ افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
