پنجابی زبان اور ہماری ذمےداری

Blogger Shehzad Hussain Bhatti

پنجاب اسمبلی میں حال ہی میں پیش کیا گیا بِل، جس میں سرائیکی، پوٹھوہاری اور دیگر علاقائی بولیاں پنجابی سے الگ ’’زبانوں‘‘ کے طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ محض ایک قانونی دستاویز نہیں،بل کہ پنجاب کی ہزار سالہ تہذیبی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی منظم سازش ہے۔ یہ قدم لسانی تاریخ، علمی حقائق اور ثقافتی ارتقا کے منافی ہونے کے ساتھ ساتھ پنجابی قوم کو جغرافیائی، ثقافتی اور نفسیاتی طور پر تقسیم کرنے کا خطرناک ہتھیار ہے۔
پنجاب ایک ایسی سرزمین ہے، جہاں صدیوں سے ایک ہی زبان، ایک ہی ثقافت اور ایک مشترکہ تہذیبی مزاج پروان چڑھا ہے۔ اس کے مختلف علاقوں میں جو بولیاں بولی جاتی ہیں، جیسے سرائیکی، پوٹھوہاری، مالوی یا ماجھی، یہ سب پنجابی زبان ہی کے لہجے ہیں، نہ کہ الگ زبانیں۔ اگر ہر لہجے کو ایک الگ زبان قرار دیا جائے، تو اس کا مطلب ہوگا کہ ہم دانستہ طور پر پنجابی زبان کو ٹکڑوں میں بانٹ رہے ہیں، جو کہ ایک خطرناک رجحان ہے۔
یہ بِل دراصل ان قوتوں کی چال ہے، جو ہمیشہ سے پنجاب کی آبادی، طاقت، زبان اور شناخت سے خائف رہی ہیں۔ آج وہ لسانی تفریق کو ہوا دے کر پنجاب کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے درپے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے اپنے نمایندے اس سازش کا حصہ بن گئے ہیں اور پنجاب اسمبلی جیسا مقدس ادارہ ایسی قراردادوں کی آماج گاہ بنتا جا رہا ہے، جن کا مقصد پنجاب کو تقسیم کرنا ہے۔سوال یہ ہے کہ ایسے حساس اور اہم معاملات پر پنجاب کے ادیبوں، دانش وروں، زبان کے ماہرین اور عوامی نمایندوں سے مشورہ کیوں نہیں لیا گیا؟ پنجاب کی نمایندگی کا دعوا کرنے والے ادارے، اکیڈمیاں اور تنظیمیں خاموش تماشائی کیوں بنی ہوئی ہیں؟
پنجابی زبان کی تحریری روایت 10ویں صدی (گرومکھی رسم الخط میں) سے جاری ہے۔ بابا فرید، شاہ حسین، وارث شاہ اور بلھے شاہ جیسے عظیم صوفیا نے اپنے کلام میں تمام علاقائی بولیاں سمو کر پنجابی کی جامعیت کو زندہ رکھا۔ اُن کی وراثت کبھی لسانی تقسیم کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ عالمی لسانیات کے معیاری مصادر جیسے "Ethnologue” اور :ISO 639-3 واضح کرتے ہیں کہ سرائیکی، پوٹھوہاری، ہندکو اور ڈیری پنجابی کی ذیلی بولیاں ہیں، نہ کہ الگ زبانیں۔ ان میں 80، 90 فی صد الفاظ، گرامر اور صوتیات مشترک ہیں۔ اگر ہر لہجے کو الگ زبان تسلیم کر لیا جائے، تو جرمنی (جہاں 20 سے زائد لہجے بولے جاتے ہیں) یا عرب ممالک (جہاں مصری، شامی اور خلیجی لہجے الگ ہیں) کی یک جہتی کب کی تباہ ہوچکی ہوتی۔
اس بل کے پیچھے چھپی ہوئی قوتیں وہی ہیں، جنھوں نے 1962ء کے تعلیمی پالیسی کمیشن میں پنجابی کو ’’علاقائی زبان‘‘ قرار دے کر اسے تعلیم اور دفتر سے بے دخل کیا تھا۔ آج یہی طاقتیں ’’لسانی تنوع‘‘ کے فریب کے تحت پنجاب کی آبادی (جو پاکستان کا 53 فی صد ہے) کو 8، 10 چھوٹی اکائیوں میں تقسیم کرکے اس کی سیاسی و معاشی طاقت کو کچلنا چاہتی ہیں۔
انتہائی افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پنجاب کے ادارے جیسے پنجابی اکیڈمی، پبلک لائبریری اور تعلیمی بورڈ اس سازش کے خلاف خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ بھارتی پنجاب کی پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ نے سرائیکی کو پنجابی کا لہجہ تسلیم کرکے علمی دیانت دکھائی ہے، لیکن لاہور کے ادارے اس اہم تاریخی موقف پر خاموش ہیں۔ ہماری اولین ذمے داری ہے کہ پنجابی کو فوری طور پر پنجاب کی واحد سرکاری، تعلیمی اور عدالتی زبان بنایا جائے۔ سندھ میں سندھی اور خیبر پختونخوا میں پشتو کی طرح پنجاب میں بھی تمام سرکاری خط و کتابت، تعلیمی نظام اور عدالتی کارروائیاں پنجابی میں ہونی چاہییں۔
تعلیمی انقلاب ناگزیر ہے۔ پرائمری سے یونیورسٹی سطح تک پنجابی لازمی مضمون ہو۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور قانون کی کتابوں کا پنجابی میں ترجمہ کیا جائے، تاکہ زبان جدید علوم سے ہم آہنگ ہوسکے۔ پنجابی اکیڈمی کو سرائیکی اور پوٹھوہاری لغات و قواعد شائع کر کے ثبوت دینا چاہیے کہ یہ الگ زبانیں نہیں، بل کہ پنجابی کے رنگ ہیں۔
ثقافتی محاذ پر فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ پنجاب کے تمام لہجوں میں مشاعروں، میلوں اور ثقافتی پروگراموں کو فروغ دے کر لسانی ہم آہنگی کو تقویت دی جائے۔ جب ماجھی، دوآبی، مالوی، پوادھی، پوٹھوہاری اور سرائیکی بولنے والے ایک سٹیج پر اکٹھے ہوں گے، تو یہ ثابت ہو جائے گا کہ اُن کی بنیاد ایک ہی لسانی خاندان ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے اپنی ماں بولی کو نظرانداز کیا، وہ صفحۂ ہستی سے مٹ گئی۔ قدیم مصری تہذیب اپنی زبان کھونے کے بعد معدوم ہو گئی۔ سندھو گھاٹی کی تحریریں آج تک اَن پڑھی ہیں۔ کیوں کہ ہم اس لسانی رشتے کو کاٹ چکے ہیں۔ کیا پنجابی کو بھی اپنے ہی گھر میں بے گھر ہونا پڑے گا؟
پنجابی صرف الفاظ کا ذخیرہ نہیں؛ یہ ہماری روح کی آواز، دھرتی کا نغمہ اور تہذیبی شناخت ہے۔ جیسا کہ عظیم شاعر میاں محمد بخش نے کہا: ’’جے نہ بولے آں پنجابی، تاں کس آکھاں درد دلڑے دا حال۔‘‘
اگر آج ہم خاموش رہے، تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ پنجابی کی بقا ہی پنجاب کی بقا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے