ثقافتی ورثے اور علاقائی روایات کا تحفظ

Blogger Engineer Miraj Ahmad

سوات ایک ایسی سرزمین ہے، جو صرف قدرتی حسن یا جغرافیائی اہمیت کی بنا پر مشہور نہیں، بل کہ اس کی اصل شناخت اس کی تہذیب، تمدن اور ثقافت سے وابستہ ہے۔ یہاں کے پہاڑ، وادیاں، دریا اور چراگاہیں صرف منظرنامے کا حصہ نہیں، بل کہ ایک ایسے معاشرے کی علامت ہیں، جو صدیوں سے اپنی روایات، فنون اور اقدار کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔
سوات کی ثقافت نہ صرف پاکستان، بل کہ پورے جنوبی ایشیا میں ایک ممتاز مقام رکھتی تھی، جہاں روایت اور جدیدیت میں توازن موجود تھا…… مگر اب یہ توازن بگڑ چکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری ثقافتی وراثت سے بے اعتنائی اور تیز رفتار جدیدیت کا بے ہنگم تسلط ہے۔
سوات کی ثقافتی شناخت کا ایک اہم پہلو مقامی زبان ’’پشتو‘‘ ہے۔ یہ زبان نہ صرف رابطے کا ذریعہ ہے، بل کہ اس کے ذریعے داستانیں، ضرب الامثال، روایتی گیت اور اجتماعی دانش نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہے۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ والدین خود بچوں کو اُردو یا انگریزی میں بات کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، جس کی وجہ سے بچے پشتو کے سادہ الفاظ بھی درست طریقے سے ادا نہیں کر پاتے۔ تعلیمی اداروں میں مادری زبان کی عدم موجودگی نے صورتِ حال کو مزید خراب کیا ہے۔
زبان کا یہ زوال صرف لسانی مسئلہ نہیں، بل کہ ثقافتی انقطاع کا سبب ہے، جو آیندہ نسل کو اپنی تاریخ اور شناخت سے مکمل طور پر کاٹ سکتا ہے۔
سوات کی دست کاری اور فنونِ لطیفہ بھی اسی زوال کا شکار ہوچکے ہیں۔ ہاتھ کی کڑھائی، لکڑی کی کندہ کاری، روایتی ٹوپیاں، شالیں اور دیگر دست کاری کے نمونے جو کبھی نہ صرف مقامی معیشت کا سہارا تھے، بل کہ دنیا بھر میں سوات کی پہچان سمجھے جاتے تھے، اب گم نامی کی دھول میں چھپتے جا رہے ہیں۔ وجہ سادہ ہے: مارکیٹ میں سستی، مشینی اور غیر معیاری اشیا کی بھرمار اور فن کاروں کو مناسب سرپرستی کا نہ ملنا۔ اس کے علاوہ، تعلیم اور معاشی دباو نے نوجوان نسل کو ہنر سیکھنے سے دور کر دیا ہے۔ انھیں یہ ہنر نفع بخش نہیں لگتے اور یوں ایک ایک کرکے صدیوں پرانے فنون ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔
روایتی موسیقی، رباب اور منگے کی آواز، جو کبھی سوات کے ہر گھر اور محفل کی زینت ہوا کرتی تھی، اب دب چکی ہے۔ لوک موسیقار یا تو بے روزگار ہوچکے ہیں، یا پھر چھوٹے موٹے شادی بیاہ کے فنکشن تک محدود ہوگئے ہیں۔ رباب، جو پشتون ثقافت کا دل سمجھا جاتا ہے، اب صرف چند محدود حلقوں میں بجتا ہے۔ نوجوان نسل اب موسیقی کی طرف تو راغب ہے، مگر اُن کا رجحان مغربی یا پاپ کلچر کی طرف زیادہ ہے، جس میں مقامی شناخت یا اقدار کی کوئی جھلک نہیں ہوتی۔ یوں فن صرف ایک تفریح بن کر رہ گیا ہے، اس کا وہ روحانی اور معاشرتی پہلو کہیں کھو گیا ہے۔
سوات کے تہوار، جیسے روایتی لوک میلے، عید کے دنوں کی مخصوص تقریبات، اجتماعی مشاعرے اور روایتی کھیل جیسے نیزہ بازی، کبڈی اور پتنگ بازی اب ماضی کا قصہ بنتے جا رہے ہیں۔ ان تقریبات کا مقصد صرف تفریح نہیں ہوتا تھا، بل کہ یہ لوگوں کو آپس میں جوڑنے، مشترکہ اقدار کو فروغ دینے اور نئی نسل کو روایت سے آشنا کرنے کا ذریعہ بھی ہوتا تھا…… مگر اب شہر کاری، نجی مصروفیات اور انفرادی طرزِ زندگی نے ان سب روایتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
ثقافتی زوال کا ایک اور سنگین پہلو سماجی اقدار میں تبدیلی ہے۔ بزرگوں کا احترام، مہمان نوازی، ہمسائیوں کا خیال اور برادری کے مسائل کا اجتماعی حل، جو پشتون ثقافت کا خاصہ تھے، اب کم زور ہو چکے ہیں۔ فرد کی جگہ ’’مَیں‘‘ نے لے لی ہے اور ’’ہم‘‘ کا تصور تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا نے تعلقات کو مصنوعی بنا دیا ہے، جہاں دکھاوا اصل تعلقات پر غالب آ چکا ہے۔
یہ صورتِ حال صرف افسوس ناک ہی نہیں، بل کہ خطرناک بھی ہے۔ ثقافت صرف ناچ گانا، لباس یا زبان کا نام نہیں، بل کہ یہ وہ نظامِ اقدار ہے، جو معاشرے کو ایک شناخت دیتا ہے۔ جب ثقافت کم زور ہوتی ہے، تو معاشرتی ڈھانچا بھی کم زور ہو جاتا ہے اور اس کا نتیجہ اخلاقی زوال، شناخت کا بحران اور معاشرتی بگاڑ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاستی اور غیر ریاستی ادارے، تعلیمی نظام اور ذرائع ابلاغ مل کر اس ثقافتی زوال کو روکے۔ اسکولوں میں مقامی تاریخ، ادب اور زبان کو شامل کیا جائے۔ ثقافتی میلے، فن کاروں کی مالی معاونت اور ہنر مندی کی تربیت جیسے اقدامات کو فروغ دیا جائے۔ میڈیا، خاص طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، کو مقامی ثقافت کی ترویج میں استعمال کیا جائے، نہ کہ صرف غیر ملکی رجحانات کی تشہیر میں۔
یہ ایک اجتماعی ذمے داری ہے، جس میں ہر فرد، ہر ادارہ اور ہر طبقہ شامل ہے۔ اگر ہم نے آج اپنی ثقافت کی حفاظت نہ کی، تو آنے والی نسلیں نہ صرف اپنی جڑوں سے محروم ہوں گی، بل کہ وہ اپنی شناخت سے بھی ناآشنا رہیں گی۔
سوات جیسے خطے کو صرف قدرتی حسن سے نہیں، بل کہ اپنی ثقافتی میراث کے ذریعے دنیا کے سامنے سر اُٹھا کر کھڑا ہونا چاہیے…… اور یہ تب ممکن ہے، جب ہم اپنے ماضی سے جڑ کر، حال میں درست فیصلے کریں، تاکہ مستقبل محفوظ بنایا جا سکے۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے