درال تا دریائے سوات: ’’وسائل کی بندر بانٹ‘‘

Blogger Sami Khan Torwali

پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقے دنیا کے اُن چند خطوں میں شمار ہوتے ہیں، جہاں فطرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ ان علاقوں میں وادیاں، جھرنے ، نیلگوں پانی کے چشمے، گھنے جنگلات اور برف پوش پہاڑ ایک ایسا منظرنامہ تشکیل دیتے ہیں، جو نہ صرف سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے، بل کہ مقامی لوگوں کے لیے معیشت، زراعت اور ثقافت کا بنیادی سہارا بھی فراہم کرتا ہے۔ ان تمام نعمتوں میں اگر کسی عنصر کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے، تو وہ ہے پانی۔ اور پانی کا سب سے خوب صورت اور جیتا جاگتا مظہر دریا کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے۔
سوات، جو کہ خیبرپختونخوا کا ایک مرکزی ضلع ہے، محولہ بالا تمام قدرتی خزانوں کا مرکز ہے۔ یہاں کے دریا، خاص طور پر دریائے سوات، اس علاقے کی زندگی کا استعارہ ہیں، مگر آج یہی دریا، جو کل تک زندگی بانٹتا تھا، بے رحم پالیسیوں، مفاد پرست منصوبہ سازوں اور حکومت کے خوشامدی عناصر کی ہوسِ زر کی نذر ہو رہا ہے۔ دریائے درال کی قربانی اس سلسلے کی پہلی قسط تھی اور اب دریائے سوات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
دریائے درال، جو بحرین کے بیچوں بیچ واقع ہے، کبھی نیلگوں پانی کی موجوں، خنک ہواؤں اور مچھلیوں سے بھرپور پانی کے سبب مقامی حیات کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ موسمِ گرما میں جب پہاڑوں کی برف پگھلتی، تو یہ دریا ٹھاٹھیں مارتا ہوا بہتا، اپنی روانی میں سب کچھ سمولیتا، مگر آج یہ دریا ایک بے جان ندی بن چکا ہے۔ نہ پانی کی روانی ہے، نہ ماہی گیری، نہ وہ خنک جھونکے، جو اس دریا کے کنارے بیٹھنے والوں کو سحر میں مبتلا کرتے تھے۔ اور یہ سب کچھ ہوا ایک نام نہاد ترقیاتی منصوبے کی بھینٹ چڑھ کر۔
سال 2011ء میں ’’خیبرپختونخوا انرجی ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن‘‘ (PEDO) نے دریائے درال پر ایک ’’ہائیڈرو پاور سکیم‘‘ ڈیزائن کی۔ مقصد یہ تھا کہ مقامی سطح پر توانائی پیدا کی جائے، لوڈ شیڈنگ کم ہو اور مقامی معیشت کو تقویت دی جائے۔ عوام سے کہا گیا کہ اس منصوبے سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، ماحول پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا اور علاقے کو بجلی فراہم کی جائے گی، مگر حقیقت اس سے یک سر مختلف نکلی۔
منصوبے میں تاخیر ہوئی، اس کے مالی معاملات مشکوک رہے اور سب سے بڑھ کر عوام کو اعتماد میں لینے کے دعوے صرف حکومتی پریس ریلیزوں تک محدود رہے۔ جب مقامی لوگ سوال اُٹھاتے، تو اُنھیں ترقی دشمن، ملک دشمن، اور لاعلم قرار دیا جاتا۔ ’’چمچوں‘‘ کی ایک مخصوص جماعت ہر اُس آواز کو دباتی جو عوامی مفادات کا دفاع کرتی۔
یہ وہ لوگ ہیں، جو اقتدار کے در پر جھکنے کو عبادت سمجھتے ہیں۔ اُن کی پہچان، اُن کے الفاظ سے نہیں، بل کہ اُن کی خاموشی سے ہوتی ہے۔ درال منصوبے کے ابتدائی دنوں میں یہی لوگ بڑے بڑے دعوے کرتے تھے، عوام کو سبز باغ دکھاتے تھے اور ہر مخالفت کو غداری کا نام دیتے تھے…… مگر آج جب دریا خشک ہوچکا ہے، مقامی معیشت تباہ حال ہے اور لوگ ہجرت پر مجبور ہیں، تو مذکورہ ’’چمچے‘‘ غائب ہیں۔ اُن کے چہروں پر ندامت ہے، نہ شرمندگی۔ اُنھیں اپنے مفاد کی پروا ہے، عوام کی نہیں۔
دریا کی روانی محض پانی کا بہاو نہیں، بل کہ ایک مکمل ماحولیاتی نظام کا ستون ہے۔ دریا کے ساتھ ساتھ زرخیز زمینیں، مقامی فصلیں، جنگلی حیات، پرندے اور انسانی تمدن سب پنپتے ہیں۔ جب دریا خشک ہوتا ہے، تو زمینیں بنجر ہو جاتی ہیں، زراعت دم توڑ دیتی ہے، پانی کی قلت پیدا ہوتی ہے اور مقامی درجۂ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔ درال منصوبے نے ان تمام خطرات کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔
’’پیڈو‘‘ کا قیام اس مقصد کے لیے کیا گیا تھا کہ خیبرپختونخوا میں صاف توانائی کے منصوبے بنائے جائیں، مگر اس ادارے نے درال منصوبے میں نہ صرف شفافیت کا خون کیا، بل کہ عوامی مشاورت، ماحولیاتی تشخیص اور مقامی معیشت کے تانے بانے کو بھی نظر انداز کیا۔ منصوبے کی نہ ماحولیاتی رپورٹ منظرِ عام پر لائی گئی، نہ عوامی سماعت کا کوئی اہتمام کیا گیا اور نہ مقامی لوگوں کو اُن کے حقوق کے بارے میں آگاہ ہی کیا گیا۔
’’پیڈو‘‘ نے اب دریائے سوات کو اپنے اگلے منصوبے کے لیے منتخب کیا ہے۔ منصوبے کے تحت دریا کو کیدام سے ایک طویل سرنگ کے ذریعے مدین تک منتقل کیا جائے گا۔ اس سرنگ کے نتیجے میں دریا کا قدرتی بہاو متاثر ہوگا اور مدین، بحرین، کالام اور دیگر سیاحتی مقامات شدید متاثر ہوں گے۔ منصوبے کے تحت 85 ہزار سے زائد کی آبادی دریا سے محروم ہو جائے گی۔ ’’پیڈو‘‘ کا دعوا ہے کہ اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا، مگر درال منصوبے کا انجام دیکھنے کے بعد اس بات پر یقین کرنا خودفریبی ہی ہے۔
مدین، بحرین، کالام اور ملم جبہ جیسے مقامات کی معیشت 80 فی صد دریا پر انحصار کرتی ہے۔ سیاح یہاں دریا کنارے قیام کرتے ہیں، مچھلیاں کھاتے ہیں، دریا کی موجوں کے ساتھ جیتے ہیں۔ اگر دریا کو سرنگ میں بند کر کے بہا دیا گیا، تو یہ تمام سیاحتی سرگرمیاں ختم ہو جائیں گی۔ ہوٹل بند ہوجائیں گے اور مقامی نوجوان بے روزگار ہو جائیں گے۔ زراعت، جو دریا کے پانی سے سیراب ہوتی ہے، تباہ ہو جائے گی۔
پانی کا قدرتی بہاو مقامی درجۂ حرارت کو متوازن رکھتا ہے۔ جب دریا سوکھتا ہے، تو علاقے میں درجۂ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے، ہوا کی نمی کم ہو جاتی ہے اور جنگلی حیات کی بقا خطرے میں پڑجاتی ہے۔ درال دریا کی بندش نے یہ سب کچھ ثابت کر دیا ہے۔ اگر دریائے سوات کو سرنگ میں بند کیا گیا، تو یہ اثرات کئی گنا بڑھ جائیں گے۔
قارئین! اب وقت ہے کہ عوام مزید خاموش نہ رہیں۔ احتجاج صرف سڑکوں پر نعرے بازی تک محدود نہیں، بل کہ اسے منظم، مدلل اور قانونی بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے۔ وکلا نے عدالتوں میں پٹیشن دائر کی ہے، لیکن سب کو پتا ہے کہ عدالتی نظام یہاں کتنی سست روی کا شکار ہے۔ ماہرینِ ماحولیات نے رپورٹس تیارکی ہیں، مزید بھی کرنی چاہییں اور میڈیا کو اس مسئلے کو قومی سطح پر اجاگر کرنا چاہیے۔ ’’دریائے سوات بچاو تحریک‘‘ کو ایک قومی ماحولیاتی آواز بھی اٹھانی چاہیے۔
پاکستان میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے کئی قوانین موجود ہیں، جیسے "NEQS” (National Environmental Quality Standards), PEPA (Pakistan Environmental Protection Act), EIA (Environmental Impact Assessment) ان قوانین کے تحت ہر بڑے منصوبے سے قبل ماحولیاتی تشخیص لازمی ہے۔ اگر پیڈو نے ایسا نہیں کیا اور اس میں کوتاہی کی ہے، تو اسے عدالت میں چیلنج کیا جائے۔ صاف توانائی کا مطلب یہ نہیں کہ قدرتی وسائل کو تباہ کر دیا جائے۔ دنیا بھر میں ایسے ماڈل موجود ہیں، جہاں کمیونٹی بیسڈ ہائیڈرو پاؤر منصوبے چلائے جا رہے ہیں، جن میں مقامی لوگ شراکت دار ہوتے ہیں۔ اگر حکومت واقعی مخلص ہے، تو وہ مقامی سطح پر چھوٹے پیمانے کے منصوبے بنا سکتی ہے، جن کا اثر ماحول پر کم اور فائدہ زیادہ ہو۔
چوں کہ یہ منصوبے بین الاقوامی مالیاتی اداروں جیسے ’’ورلڈ بینک‘‘ یا ’’ایشیائی ترقیاتی بینک‘‘ کی فنڈنگ سے کیے جا رہے ہیں۔ اس لیے عالمی اداروں تک شکایات پہنچائی گئی ہیں۔ ان اداروں کے اپنے شکایتی میکانزم ہوتے ہیں، جن کے ذریعے ماحولیاتی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کارروائی ممکن ہے ۔
قارئین! یہ صرف سوات یا درال کا مسئلہ نہیں، بل کہ پورے پاکستان کے قدرتی وسائل کی بقا کا سوال ہے۔ اگر ہم نے آج خاموشی اختیار کی، تو کل ہمارے دریا صرف کتابوں میں ملیں گے، ہمارے بچے صرف تصویروں میں نیلگوں پانی دیکھیں گے اور ہماری سرزمین بنجر ہو جائے گی۔ ہمیں اپنی اجتماعی ذمے داری کا ادراک کرنا ہوگا۔ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ دریائے درال ہمارا تھا، اب نہیں رہا؛ دریائے سوات ہمارا ہے اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔‘‘
قارئین! آئیں، متحد ہوں، آواز بلند کریں اور اس جد و جہد کو نسلوں کی بقا کا مقدس فرض سمجھ کر جاری رکھیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے