(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
ہز ہائنس میجر جنرل، سلطان العلوم، غازیِ ملت میانگل عبد الحق جہانزیب، (H.Q.A) دراصل 5 جون 1908ء کو پیدا ہوئے۔ انھیں 12 دسمبر 1949ء کو سوات کا والی مقرر کیا گیا۔ 28 جولائی 1969ء کو ایک آمر، یحییٰ خان نے سوات کی ریاست کو پاکستان میں ضم کر دیا۔
اس سر زمین کا یہ عظیم بیٹا 14 ستمبر 1987ء کو وفات پاگیا۔ اپنی 20 سالہ حکم رانی کے دوران میں انھوں نے سوات کو ایک جدید فلاحی ریاست میں تبدیل کیا اور دنیا کے سامنے سوات کو ایک مہذب، تعلیم یافتہ اور امن پسند لوگوں کے گھر کے طور پر پیش کیا۔
بس یہی کُل کہانی ہے…… لیکن کیا کہانی واقعی ختم ہوگئی؟ نہیں، یہ نسلوں تک دہرائی جاتی رہے گی، جب تک ایک بھی سواتی زندہ ہے اور جب تک شانگلہ، بونیر اور انڈس کوہستان میں زندگی جاری و ساری ہے۔ لوگ ہر روز ان کی مختلف جہتوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ اگر’’رنگے‘‘جیسی بربریت اُس کے دور میں ہوتی، تو وہ کیا کرتے اور ملا فضل اللہ کو کس طرح روکتے؟ لوگ ایسے سوالات پوچھتے رہے ہیں اور ہر ایک آفت کا سامنا کرنے پر کرتے رہیں گے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ سوات کی زیادہ تر نئی نسل "Merger” کے بعد پیدا ہوئی ہے، اور سوات کے وہ نوجوان، جنھوں نے امن، سکون اور ترقی کے ان دنوں کو نہیں دیکھا، وہ اس کے بارے میں زیادہ پُر جوش ہیں۔ وہ اُن کا ذکر محبت اور احترام کے ساتھ کرتے ہیں۔ وہ ان کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں کہ انھوں نے کیسے چار ہزار مربع میل کی پہاڑی علاقے کا انتظام کیا، انفراسٹرکچر کیسے بنایا، تعلیمی اور صحت کے اداروں کا سلسلہ کیا تھا، عدالتی نظام کیسا تھا، اور سب سے بڑھ کر ایک خود سر قبائلی معاشرے کو کیسے مہذب بنایا اور انھیں نئی زندگی کی راہ پر گام زن کیا؟
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی طرف سے (جن کی خوش حالی اُس شخصیت کے تدبر اور سرپرستی کی مرہونِ منت تھی) ان کی ذات کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے کے باوجود ان کی محبت اور احترام عروج پر رہے گا۔ کسی بھی قسم کے شر پسند عناصر اس خطے کی اکثریت پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔
ان کی تعلیمی اصلاحات نے بہت سے پس ماندہ علاقوں کے نوجوانوں کی زندگی کو بدل کر اس اعلا مقام تک پہنچا دیا، جو پہلے صرف مراعات یافتہ طبقے کے لیے مخصوص تھا۔ صحت کی خدمات صرف برائے نام نہیں تھیں، تمام طبی سہولیات اور ادویہ مفت تھیں۔ ہسپتال میں داخل مریضوں کو طبی مشورے کے مطابق کھانا فراہم کیا جاتا تھا۔ ہر شہری کو انصاف فراہم کیا جاتا تھا۔ اگر کوئی نچلی عدالت کے فیصلے سے مطمئن نہیں تھا، تو وہ اپنی اپیل بہ راہِ راست حکم ران کے سامنے پیش کرسکتا تھا۔
انھوں نے لوگوں کو مناسب لباس پہننے کی ترغیب دی، جیسا کہ بدلتے ہوئے زمانے کی ضرورت تھی۔
انھوں نے لوگوں کو مغربی لباس پہننے پر مجبور تو نہیں کیا، مگر حوصلہ افزائی ضرور کی۔
وہ ہمیشہ صاف ستھرے لباس میں ملبوس رہتے تھے اور لوگ ان کی پیروی کرتے تھے۔
انھوں نے ہمیشہ دنیا کے سامنے سوات کا نرم چہرہ پیش کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان کی سطح پر قومی ایونٹس میں سوات کی نمایندگی کرنے والی کھیلوں کی ٹیموں کا انتخاب اچھے اور صحت مند نوجوانوں میں سے کیا جاتا تھا۔ ریاستی فورس کے افسران اور دیگر ’’رینکس‘‘ سب "Good Looking” اور مضبوط مرد تھے، جو ایک خوش حال معاشرے کا تاثر دیتے تھے۔
انھوں نے مشہور جہانزیب کالج اور ریاست کے دائرۂ اختیار میں دیگر سکولوں کی سربراہی کے لیے اعلا تعلیم یافتہ اور تجربہ کار تعلیم یافتہ افراد کو منتخب کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
بہ راہِ کرم ان کی 20 سالہ حکم رانی کا موازنہ ان 55 سالوں سے کریں، جو "Merger” کے بعد گزرے ہیں اور یہ دیکھیں کہ آپ کا ضمیر کیا فیصلہ کرتا ہے؟
آئیں، ہم اللہ سے دعا کریں کہ میانگل جہانزیب کو اُن کے جنم دن کے موقع پر اعلا انعامات عطا فرمائے، آمین!
نوٹ:۔ اورنگزیب عرف ’’رنگے‘‘ وہی شخص ہے جس نے مینگورہ میں کئی بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور ان کی قابلِ اعتراض ویڈیوز بنائی تھیں۔ یہ سکینڈل چند سال پہلے سامنے آیا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
