’’ایم ٹی آئی ایکٹ‘‘ (میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشنز ایکٹ) ایک ایسا قانونی ڈھانچا ہے، جس کا مقصد پاکستان میں سرکاری طبی اداروں کو نیم خود مختار بنانا ہے، تاکہ ان کی کارکردگی بہتر بنائی جا سکے۔
اس ایکٹ کا بنیادی دعوا یہ تھا کہ بیورو کریسی کے روایتی نظام سے ہٹ کر ہسپتالوں اور میڈیکل کالجوں کو انتظامی و مالیاتی خود مختاری دی جائے گی، تاکہ فیصلہ سازی کا عمل تیز، موثر اور مریض دوست ہو۔
تاہم، اس نعرے کے پیچھے چھپی پیچیدگیاں، تضادات اور عملی نتائج ایک وسیع تنقید کا باعث بن چکے ہیں۔
’’ایم ٹی آئی ایکٹ‘‘ نے اسپتالوں کو بورڈ آف گورنرز کے تحت دے دیا ہے، جن کا انتخاب اکثر حکومتی اثر و رسوخ کے تحت ہوتا ہے۔ یہ بورڈ نہ صرف ہسپتال کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، میڈیکل ڈائریکٹر، نرسنگ ڈائریکٹر اور فنانس ڈائریکٹر کا تقرر کرتا ہے، بل کہ پالیسی سازی، بھرتیوں، برطرفیوں اور بجٹ کی تقسیم میں بھی مکمل اختیار رکھتا ہے۔
آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک عوامی ادارہ، جو ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے چلتا ہے، اب چند مخصوص افراد کی صواب دید پر چلایا جاتا ہے، جن کی ترجیحات اکثر زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
اس قانون کے تحت سرکاری ملازمین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا:
٭ مستقل۔
٭ کنٹریکٹ بیسڈ۔
جو لوگ ایم ٹی آئی نظام کو قبول نہیں کرتے، اُن کے لیے ’’ریٹائرمنٹ‘‘ یا تبادلے کا راستہ کھلا رکھا جاتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف انسانی وسائل کی تضحیک ہے، بل کہ سرکاری ملازمت کے استحکام کو بھی غیر یقینی بناتا ہے۔
ڈاکٹروں، نرسوں، اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی ایک بڑی تعداد اس نظام کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، کیوں کہ اُنھیں خدشہ ہے کہ اس نظام کے ذریعے نج کاری کو فروغ دیا جا رہا ہے، جس سے غریب مریضوں کا مفت علاج متاثر ہوگا۔
ایم ٹی آئی نظام کو نجی شعبے کے نظم و نسق کی تقلید قرار دیا جاتا ہے، مگر اس بات کو نظر انداز کیا جاتا ہے کہ سرکاری اور نجی ہسپتالوں کا بنیادی ہدف اور سماجی ذمے داری مختلف ہوتی ہے۔
نجی ہسپتال منافع کی بنیاد پر چلتے ہیں، جب کہ سرکاری ہسپتال عوامی خدمت کے اصول پر قائم ہوتے ہیں۔ جب سرکاری ہسپتالوں پر بھی منافع بخش ماڈل نافذ کرنے کی کوشش کی جائے گی، تو اس کا نتیجہ عام آدمی کی محرومی اور علاج کو ایک ’’سروس‘‘ کی بہ جائے ’’پراڈکٹ‘‘ میں تبدیل کرنے کی صورت میں نکلے گا۔
ایک اور اہم پہلو شفافیت اور احتساب کا ہے۔ ’’بورڈ آف گورنرز‘‘ کے فیصلے کس بنیاد پر کیے جاتے ہیں، کن اُصولوں کے تحت کنٹریکٹ دیا جاتا ہے، یا کسی ڈاکٹر کو کیوں نکالا گیا؟ یہ سب سوالات اکثر غیر واضح رہتے ہیں۔ نہ تو کوئی مؤثر آڈٹ سسٹم موجود ہے اور نہ مریضوں یا عام شہریوں کی نمایندگی کا کوئی مستند طریقۂ کار۔ اس نظام میں عوام کا کردار محض صارف کا رہ جاتا ہے، شریک فیصلہ ساز کا نہیں۔
یونیورسٹی ہسپتالوں اور تدریسی اداروں کا ایک بنیادی مقصد تربیت بھی ہوتا ہے۔ جب انتظامیہ کا فوکس صرف ’’ریونیو‘‘، ’’بجٹ‘‘ اور ’’آؤٹ پٹ‘‘ پر ہو، تو تدریسی پہلو ثانوی ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً نہ صرف تدریسی معیار متاثر ہوتا ہے، بل کہ مستقبل کے ڈاکٹروں کی تیاری بھی سطحی رہ جاتی ہے۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایم ٹی آئی ایکٹ کا تصور بہ ظاہر اصلاحاتی تھا، مگر اس کے عملی نفاذ نے کئی سنجیدہ سوالات کو جنم دیا ہے۔
یہ سوال صرف ڈاکٹر یا ہسپتال انتظامیہ کے نہیں، بل کہ ہر اُس فرد کے ہیں، جو سرکاری ہسپتال میں مفت یا سستا علاج کروانے کا حق رکھتا ہے۔ اگر اصلاحات کو عوامی مشاورت، شفافیت اور سماجی مساوات کے اُصولوں سے ہم آہنگ نہ کیا جائے، تو وہ صرف بحران پیدا کرتی ہیں، حل نہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
