توروالی زبان و ثقافت کے امین، زبیر توروالی

Blogger Sami Khan Torwali

دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنھیں کسی رسمی تعارف کی حاجت نہیں ہوتی۔ اُن کی افکار، خدمات، کردار اور اخلاق ہی اُن کی پہچان بن جاتے ہیں۔ وہ اپنے وجود سے معاشرے کو شعور، اپنے قلم سے فہم اور اپنے عمل سے روشنی عطا کرتے ہیں۔ اُن کی زندگی محض ذاتی ترقی کا نام نہیں، بل کہ وہ دوسروں کی بہتری، قوم کے فلاح، زبان و ثقافت کے تحفظ اور انسانیت کی بقا کے لیے وقف ہوتی ہے۔ انھی نابغۂ روزگار ہستیوں میں ایک نام جناب زبیر توروالی کا ہے، جو وادیِ سوات کی شناخت، توروالی زبان کے امین، تعلیم و تہذیب کے مبلغ اور عالمی سطح پر پاکستان کے علمی تشخص کے نمایندہ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
زبیر توروالی صاحب ایک ہمہ جہت مفکر، مصنف، ماہرِ لسانیات، ثقافتی محقق اور معاشرتی راہ نما ہیں۔ اُن کا شمار پاکستان کے اُن چند اہلِ دانش میں ہوتا ہے، جنھوں نے نہایت جاں فشانی سے نہ صرف ایک معدوم ہوتی زبان کو احیا بخشا، بل کہ اسے علمی دنیا میں بھی متعارف کرایا۔ اُنھوں نے اپنی تمام تر توانائیاں، فکری بصیرت اور عملی جد و جہد توروالی زبان، اس کے بولنے والوں کی تعلیم و تربیت، ثقافت کے احیا اور فکری ترقی کے لیے وقف کر رکھی ہیں۔
زبیر صاحب ’’ادارہ برائے تعلیم و ترقی‘‘ (IBT) کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں، جو سوات میں توروالی زبان، تعلیم، تہذیبی شعور، ادبی فروغ اور سماجی بہتری کے لیے نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ اس ادارے کے تحت نہ صرف توروالی زبان میں تدریسی مواد تیار کیا گیا ہے، بل کہ سیکڑوں بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دے کر ایک نیا تعلیمی ماڈل پیش کیا گیا ہے، جسے بین الاقوامی سطح پر قابلِ تقلید مثال کے طور پر تسلیم کیا گیا۔
زبیر صاحب کی خدمات محض تعلیمی ادارے تک محدود نہیں۔ وہ ایک کہنہ مشق مصنف اور قلم کار بھی ہیں۔ مختلف بین الاقوامی جرائد، تحقیقی مجلات اور اخبارات میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں، جن میں نہایت گہرائی کے ساتھ لسانیات، مقامی ثقافت، انسانی حقوق اور تعلیمی اصلاحات پر بات کی گئی ہے۔اُنھوں نے توروالی زبان پر متعدد تحقیقی مقالات تحریر کیے ہیں، جن میں اس زبان کے قواعد، لسانی ساخت، ارتقائی مراحل اور ثقافتی پس منظر پر مفصل تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
اُن کی تحریروں سے نہ صرف علمی دنیا استفادہ کرتی ہے، بل کہ عام قاری کو بھی اپنی تہذیب اور زبان سے محبت کا جذبہ نصیب ہوتا ہے۔ اُنھوں نے مقامی ثقافت کے اُن پہلوؤں کو اُجاگر کیا ہے، جو صدیوں سے نظر انداز کیے جا رہے تھے اور جو آج ان کی کوششوں سے نئی نسل تک منتقل ہو رہے ہیں۔
زبیر توروالی صاحب کی علمی خدمات کی بازگشت صرف پاکستان تک محدود نہیں رہی۔ دنیا کے مختلف ممالک میں اُن کو بہ طور ماہرِ لسانیات، ثقافتی محقق اور ماہرِ تعلیم مدعو کیا جاتا ہے۔ اُنھوں نے عالمی سیمینارز، کانفرنسز اور علمی مذاکروں میں شرکت کی ہے، جہاں اُنھوں نے توروالی زبان و ثقافت کے علاوہ پاکستان کے تنوع کو بہترین انداز میں پیش کیا۔اُن کی گفت گو میں وہ صداقت اور تحقیق کی خوش بو ہوتی ہے، جو دلوں کو چھو لیتی ہے۔ بین الاقوامی اداروں جیسے یونیسکو، ایشیا فاؤنڈیشن اور دیگر تعلیمی و ثقافتی تنظیموں نے اُن کے کام کو نہ صرف سراہا، بل کہ مختلف مواقع پر اسے بہ طور ماڈل پیش بھی کیا۔ یہی وجہ ہے کہ زبیر صاحب کا نام اب ایک بین الاقوامی حوالہ بن چکا ہے۔
ان تمام علمی و تحقیقی مصروفیات کے باوجود، زبیر صاحب کی زندگی انتہائی سادہ، عاجزانہ اور عام انسانوں کے لیے محبت سے بھرپور ہے۔ اُن کے مزاج میں غرور ہے، نہ کوئی علمی تفاخر۔ وہ عام انسانوں سے انتہائی خندہ پیشانی سے ملتے ہیں، بچوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں، نوجوانوں کی حوصلہ افزائی اُن کا خاص وصف ہے اور وہ معاشرتی انصاف کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔
گذشتہ برس اُن سے ایک ذاتی ملاقات کا موقع ملا، جب اُنھوں نے کچھ وقت ہمارے ساتھ ہمارے گھر پر گزارا۔ اُن کا رویہ اتنا پُرخلوص اور محبت بھرا تھا کہ اُنھوں نے اپنا زیادہ تر وقت میرے بچوں کے ساتھ گزارا۔ ان کے چہرے پر بچوں کے لیے شفقت اور محبت کی جو روشنی تھی، وہ آج بھی میری یادوں میں جگمگا رہی ہے۔
آج اگر ہم ’’دریائے سوات بچاو تحریک‘‘ کی بات کریں، تو اس کی قیادت میں زبیر توروالی صاحب کا نام صفِ اول کے اراکین میں آتا ہے۔ یہ تحریک صرف ایک دریا کے تحفظ کی جد و جہد نہیں، بل کہ ایک پورے ماحولیاتی، ثقافتی، سیاحتی اور تہذیبی ورثے کی بقا کی جنگ ہے۔ زبیر صاحب نے نہ صرف اس تحریک کو علمی بنیادیں فراہم کیں، بل کہ عالمی اداروں، حکومتی سطح اور عوامی محاذ پر اسے ایک مضبوط آواز میں تبدیل کیا۔
اگرچہ اس تحریک میں شامل ہر فرد اپنی جگہ ایک انجمن ہے، لیکن زبیر صاحب اور دیگر ساتھیوں کی فکری قیادت، علمی جواز اور حکمتِ عملی نے اس جد و جہد کو ایک واضح اور منظم سمت عطا کی۔ اُنھوں نے ثابت کیا کہ کسی بھی تحریک کی کام یابی صرف نعروں سے نہیں، بل کہ فہم، شعور، دلیل، استقامت اور اجتماعی شعور سے ممکن ہوتی ہے ۔
آج کے اس مادی، مفاد پرست اور انتشار زدہ دور میں زبیر توروالی جیسی شخصیات امید کی کرن ہیں۔ وہ ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ انسان اگر چاہے، تو نہایت سادہ وسائل، خالص نیت اور اعلا ارادے کے ساتھ معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکتا ہے۔ اُن کی زندگی خود ایک دعوتِ فکر ہے کہ علم صرف کتب میں محدود نہ ہو، بل کہ وہ معاشرے کی رگوں میں اُترے، زبانیں صرف بولی نہ جائیں، بل کہ محفوظ بھی ہوں اور ثقافتیں صرف نمایش نہ ہوں، بل کہ نسل در نسل منتقل کی جائیں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم زبیر توروالی جیسے اہلِ فکر و دانش کی قدر کریں، اُن سے سیکھیں، اُن کے افکار کو اپنائیں اور اپنی نئی نسل کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی ترغیب دیں۔ اُن کی جد و جہد، اُن کا اخلاص اور اُن کی سادگی آنے والے وقتوں میں بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ بنے گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے