ماضی کے جہانزیب کالج کے جوشیلے طلبہ

Blogger Fazal Raziq Shahaab

عظیم مادرِ علمی جہانزیب کالج میں صرف اُس وقت کے صوبہ سرحد (اَب خیبر پختونخوا) نہیں، بل کہ پنجاب تک سے لڑکے پڑھنے آتے تھے۔ پنجاب سے آئے ہوئے لڑکے اکثر بہت ذہین اور چالاک ہوتے تھے۔ یہ لڑکے دوسرے طلبہ سے الگ تلگ رہتے تھے اور اکٹھے پھرتے تھے۔ بعض کے سواتیوں سے اور دوسرے علاقوں کے لڑکوں سے بھی گپ شپ تھی۔ میرے ایک کلاس فیلو ’’مسعود‘‘ نامی بہت بلند قامت اور مضبوط جسامت والے تھے۔ رنگ گہرا سانولا اور نین نقش اچھے تھے، لیکن وہ بہت سنجیدہ رہا کرتے تھے۔کبھی مسکراتے، تو چند لمحوں کے لیے پھر سنجیدہ صورت بناتے۔اُن کا تعلق سیالکوٹ سے تھا۔ اُن کے چچا کرنل تھے اور وہی اُن کے سرپرست تھے۔
اس طرح ایک پنجانی لڑکا ’’یوسف‘‘ تھا۔ فرسٹ ائیر میں نئے داخلے شروع ہوئے، تو وہ بھی سوات آیا اور کالج جوائن کیا۔ وہ ایک نازک اندام سا، معصوم شکل و صورت والا خوب صورت لڑکا تھا۔ اُس کی مسیں ابھی نہیں بھیگی تھیں۔ بس پھر کیا تھا۔ ہر کسی کے سر پر اُس سے دوستی بڑھانے کی دھن سوار ہوئی۔ اس کے ساتھ گھومنے پھرنے والوں میں پنجابی اور پختون دونوں شامل تھے۔مجھ سے وہ سرسری علیک سلیک کرتا تھا۔
اُن دنوں کالج کے طلبہ میں مل بیٹھنے کے لیے سب سے پسندیدہ جگہ ’’نشاط کیفے‘‘ تھی۔ عثمان نامی ایک موٹا سا شخص اس کو چلاتا تھا۔ وہاں کے اٹریکشن میں اچھی چائے کے علاوہ گراموفون ریکارڈ پلیئر بھی تھا۔ یہ اُس وقت کے لحاظ سے منفرد اس لیے تھا کہ اس پر کئی ریکارڈز اوپر تلے رکھ دیے جاتے اور وہ آٹومیٹک سسٹم سے نمبروار بجتے رہتے۔
مجھے دوتین بار یوسف اپنے ساتھ نشاط کیفے تک لے گیا۔ اُس وقت کا مقبول نغمہ ’’رم جھم رم جھم پڑے پھوار‘‘ کئی بار سنوایا۔
ایک دن ایسا ہوا کہ یوسف کیفے کے عملے سے اُلجھ پڑا، تو عثمان نے اُسے تھپڑ مار کر کیفے سے نکال باہر کیا۔ یوسف نے ہاسٹل آکر ساتھیوں سے شکایت کی، تو ڈھیر سارے لڑکے یوسف کا بدلہ لینے کے لیے نکل آئے۔ ان میں اکثریت ہاکیاں ساتھ لے کر گئے اور کیفی میں اچھی خاصی توڑ پھوڑ کی۔ عثمان وغیرہ جان بچا کر تھانے جاپہنچے۔پولیس کالج کے طلبہ کے خلاف ایکشن لینے سے ہچکچارہی تھی۔ جب پولیس کو حکم ملا کہ طلبہ کو گرفتار کرکے سیدو تھانے میں بند کیا جائے اور ان کی دھنائی کی جائے، تو کالج کے لڑکوں پر ایسا ہلہ بول دیا گیاکہ اُن کو نانی یاد آ گئی۔ کچھ تو نزدیکی گلی کی مسجد میں گھس گئے، جہاں لوگ عصر کی نماز پڑھ رہے تھے۔ طلبہ جوتوں سمیت صف میں کھڑے ہوگئے۔ پولیس نے اُن کو گھسیٹ کر نکال باہر کیا۔ اُن میں میرا کلاس فیلو مسعود بھی شامل تھا۔ مَیں اگلی صبح اُس سے ملنے تھانے چلاگیا۔ تھانے دار ہمارے محلے دار تھے۔ مجھے مسعود کے پاس لے گئے۔ بے چارے کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ اُن دنوں کالج کے پرنسپل کرنل فیض اللہ خان خٹک کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ وہ پشاور کے ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔ اُن کو خبر ہوئی، تو اُسی حالت میں سوات آگئے۔ والئی سوات اُن کا بہت لحاظ کرتے تھے۔اُنھی کی یقین دہانی پر تمام طلبہ کو رہا کردیا گیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے