سوات کی روحانی فضاؤں میں اگر کسی نام کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے، تو وہ مولانا میاں فقیر محمد المعروف بازار مولوی صاحب ہے۔
علم و حلم، فقہ و فہم، زہد و تقوا اور عشقِ رسول کی وہ درخشاں قندیل تھے، جن کی روشنی نے چارباغ سے نکل کر پورے خطے کو منور کیا۔
مولانا میاں فقیر محمد المعروف بازار مولوی صاحب ضلع سوات کی معروف روحانی اور سید گھرانے سید نظیف صاحب کے گھر پیدا ہوئے۔ مولانا کا خاندان بوڈا بابا میاں گان (گلی باغ چارباغ سوات) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
٭ سلسلۂ نسب:۔
شرافتِ نسب کا یہ عالم تھا کہ مولانا میاں فقیر محمد المعروف بازار مولوی صاحب کا سلسلہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔
٭ یتیمی کی صبح اور علم کا سفر:۔
ابتدائی عمر میں والد کی وفات نے زندگی کا پہلا کٹھن مرحلہ دکھایا۔ معاشی ذمے داری چچا نے نبھائی، مگر علمی پیاس بجھانے والا کوئی نہ تھا۔ اسی خلش نے نوجوان فقیر محمد کو سفر پر آمادہ کیا۔ انھوں نے قمبر مولوی صاحب، ڈیری جولیگرام کے علما، مارتونگ اور جورے کے اساتذہ سے علوم حاصل کیے۔ بالآخر دہلی کے مدرسہ فتح پوری سے دورۂ حدیث مکمل کر کے سند الفراغ حاصل کی۔
٭ درس و تدریس کا چراغ:۔
ہندوستان کے شہر ’’بڑودہ‘‘ میں تدریس و خطابت کے تین سال آپ کی بصیرت کا نمونہ ہیں۔ وطن واپسی پر چارباغ کی بازار مسجد علم کا مرکز بنی۔ یہی وہ مقام تھا جہاں ’’قال اللہ و قال الرسول‘‘ کی صدائیں گونجتی رہیں۔ اسی نسبت سے وہ ’’بازار مولوی صاحب‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ دور و نزدیک سے طلبہ آپ کے حلقۂ درس میں شریک ہوتے، جن میں دیر، باجوڑ، مردان، افغانستان اور ایران کے افراد بھی شامل تھے۔
٭ قضا کا منبر اور حق گوئی کا اعزاز:۔
ریاستِ سوات کے بانی میانگل عبد الودود نے مولانا کو قاضی مقرر کیا۔ 30 برس تک قضا کا فریضہ انجام دیا، مگر کبھی مصلحت کو ایمان پر غالب نہ آنے دیا۔ سنڈاکئی بابا کے خلاف کفر کے فتوے کی مولانا نے برملا مخالفت کی، جس پر گرفتاری کا حکم بھی صادر ہوا، مگر حق پر ڈٹے رہے۔ آخرِکار قمبر مولوی صاحب کی سفارش پر یہ فیصلہ واپس لیا گیا۔
٭ تصوف و سلوک کا سفر:۔
مولانا کی روح ہر لمحہ حقیقت کی متلاشی رہی۔ خوش نصیبی سے حاجی ترنگ زئیؒ کی مجلس میں پہنچے اور بیعت ہو کر قادری سلسلے میں شامل ہوئے۔ حج کی سعادت بھی حاصل کی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دل معمور رکھا۔ اوراد، نوافل، تلاوت اور دلائل الخیرات کا ورد معمولِ زندگی بنا۔
٭ اخیر ایام اور دائمی سفر:۔
فالج کے حملے کے باوجود چھے برس تک معمولات میں نرمی نہ آئی۔ جنوری 1960ء کو تقریباً 80 برس کی عمر میں وفات پائی۔ آخری آرام گاہ بازار چارباغ کے عام قبرستان میں ہے۔
٭ علمی ورثہ اور خانوادہ:۔
مولانا نے اپنے پیچھے تین صاحب زادے، حاجی ہدایت الرحمان المعروف قاضی صاحب (مرحوم)، سراج الدین طوطی صاحب (مرحوم)، مفتاح الدین صاحب اور چار بیٹیاں چھوڑی ہیں۔
مولانا (مرحوم) کی علمی و روحانی میراث صرف شاگردوں میں نہیں، بل کہ اولاد میں بھی منتقل ہوئی۔ شاگردوں میں مولانا محمد اکرم، مولانا عبد المالک، مولانا فضل مالک، مولانا محمد عمر، مولانا جہان زیب اور مولانا امیر الرحمان اسلام پوری جیسے معتبر نام شامل ہیں، جنھوں نے مولانا (مرحوم) کے علم کو نسل در نسل منتقل کیا۔
قارئین! مَیں (ہلال دانش) فخر کے ساتھ کہتا ہوں کہ بازار مولوی صاحب (مرحوم) میرے پرنانا تھے۔ میرا اُن سے تعلق میری والدہ کی جانب سے ہے۔ یہ نسبت میرے لیے فخر بھی ہے اور ذمے داری بھی کہ اُن کے علمی، روحانی اور اخلاقی نقوش کو محفوظ رکھوں اور فروغ دوں۔
(نوٹ:۔ اس مضمون کی تیاری میں زیادہ معلومات ان کے نواسے ڈاکٹر محمد حنیف، پی ایچ ڈی، سابق ایڈوائزر وفاقی محکمۂ تعلیم، اسلام آباد، سے حاصل کی گئی ہیں، جن کا مشکور ہوں۔)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
