اوشو کہتا ہے کہ ہمیں یہ غلط بتایا گیا تھا کہ پہاڑ، جنگل، وادیاں اور کہکشاں خوب صورت ہیں، جب کہ اصل خوب صورت تو انسان ہے۔
اوشو کی یہ بات ہمیں اُس وقت سچ لگی جب ہم وادئی شیشی کوہ کے مرکزی قصبے تار پہنچے۔ انسانوں سے محبت کیا ہوتی ہے، احترامِ آدمیت کی حد کیا ہے، مہمان نوازی کیا ہوتی ہے اور یہ کیسے کی جاتی ہے؟ ہم فرشتے تو نہیں تھے، مگر وہاں پہنچ کر ہمیں ایسے لگا کہ ہم شاید دنیا کی کوئی وکھری اور پاک پوتر مخلوق ہیں، جو ہماری اتنی آؤ بھگت کی جا رہی ہے۔ مہمان خدا کی رحمت ہوتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ بھی ہمیں اُس وقت ہوا جب ہم مہمان بن کر تار پہنچے۔ جہاں ہمیں اجنبیت نام کا شائبہ تک محسوس نہ ہوا، بل کہ ہر سو اپنائیت ہی اپنائیت بکھری پڑی ملی۔ پیار، محبت اور اپنا پن کیا ہوتا ہے؟ اس کا پتا ہمیں تار جاکر چلا۔
دراصل ہوا کچھ یوں کہ ہمارا پروگرام تھا کہ آج کی رات ہم وادئی مڈاکلاشٹ میں جا کر کہیں پر بسر کریں گے۔ ٹینٹ ہمارے پاس تھے، کھانے پینے کا سامان بھی ہم نے دروش سے خرید لیا تھا، چکن اور چاولوں کے ساتھ ان میں ڈالنے والے تمام لوازمات بھی لے لیے تھے اور گیس کا سلنڈر بھی بھروا کر ساتھ رکھ لیا تھا، تاکہ وہاں جاکر اسے جلاکر کھانا پکا کر کھاسکیں، یا پھر زیادہ سردی ہونے کی صورت میں اسے جلاکر سردی کا سدِ باب کیا جاسکے۔
شام ہونے کو تھی جب ہم تار پہنچے۔ رات بسر کرنے کے لیے کسی ہوٹل یا پھر کوئی مناسب جگہ تلاش کرتے کرتے ہم تار گاؤں کے تقریباً آخر تک چلے گئے۔ وہاں پر ایک چھوٹی سی جگہ پر گاڑیوں میں پٹرول بھرنے والی مشین لگی تھی۔ آگے آبادی بھی چوں کہ ختم ہو رہی تھی۔ لہٰذا ہم نے وہیں پر بریک لگا دی۔ اس پٹرول پمپ کے قریب ایک لڑکا کھڑا تھا۔ وہ سمجھا کہ شاید ہم اپنی گاڑی میں پٹرول بھروانے کے لیے رُکے ہیں، مگر جب ہم نے اُس سے وہاں پر رات بسر کرنے کے لیے کسی ہوٹل یا سرائے کے متعلق پوچھا، تو اُس نے نفی میں سر ہلاکر ہماری بات کی تردید کر دی…… مگر جب ہم نے اس سے اپنے ٹینٹ لگانے کے لیے کسی مناسب جگہ کا پوچھا، تو اس پمپ کے پاس پرے پڑے ایک پھٹے پر لیٹے ایک ادکھڑ عمر کے شخص نے اشارہ کرکے اسے اپنے پاس بلایا اور ہمارے متعلق دریافت کیا۔ تھوڑی گفت و شنید کے بعد وہ واپس لوٹا، تو اس کے ساتھ ہی وہ شخص بھی ہمارے قریب آگیا اور کہنے لگا کہ آپ فکر نہ کریں۔ آج کی رات آپ ہمارے مہمان ہوں گے۔ ہم آپ کو رہایش بھی دیں گے اور کھانے پینے کے لیے بھی جو ہم سے ہوسکا کریں گے۔ ہم نے اُنھیں کہا کہ آپ کا بہت شکریہ۔ آپ ہمارے لیے رہایش کا بندوبست کردیں، جب کہ کھانا پکانے اور کھانے پینے کا سامان ہمارے پاس موجود ہے…… مگر وہ بہ ضد رہے کہ نہیں جی، آج کی رات آپ ہمارے مہمان ہوں گے۔ کھانا پلانا بھی ہماری ذمے داری ہے۔ ہم آپ پر کوئی احسان نہیں کر رہے، بل کہ یہ ہماری روایت ہے۔ مہمان خدا کی رحمت ہوتے ہیں۔ آپ ہمارے مہمان ہیں۔ آپ ہمارے لیے بے حد مہان ہیں۔ یہ ظلم نہ کریں۔ کھانا پلانا اور آپ کی حفاظت اب ہمارے ذمے ہے۔
یہ تھا اس عزت و احترام والی پیار بھری کہانی کا آغاز۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیشی کوہ میں بسنے والے یہ لوگ کون ہیں اور کب سے یہاں پر رہ رہے ہیں؟ ’’تاریخ چترال کے بکھرے اوراق‘‘ میں ایک جگہ پر پروفیسر اسرارالدین رقم طراز ہیں کہ ’’شیشی میں جوموشنگ کلاش تھا جس کا قلعہ عبدالرحمان خان مہتر جو کہ مکان کے اوپر تھا۔ ان لوگوں کے ’چور و نجوشٹ‘ منانے کی جگہ گازلشٹ شیشی تھا۔ جہاں تمام شیشی اور ڑادی سے کلاش جمع ہو کر میلہ مناتے تھے۔ جب یہ لوگ شاہ کٹور کے تابع ہوگئے، تو ایک موقع پر شاہ کٹور بہ ذاتِ خود ان کا ’چور و نجوشٹ‘ دیکھنے گازلشٹ شیشی آئے تھے۔ ان کے لیے درخت کے اوپر تخت بنایا گیاتھا، جہاں سے اس نے یہ سارا تماشا دیکھا تھا۔
یوں آج سے سو دو سو سال قبل یہاں پر بھی کیلاش قبائل رہا کرتے تھے اور یہاں پر انھی کے رسم و رواج، تہذیب اور مذہبی میلوں ٹھیلوں کا دور دورہ تھا۔ چور و نجوشٹ غالباً کیلاشیوں کا کوئی مذہبی تہوار تھا، جو یہاں پر منعقد ہوتا تھا۔ شاید یہ جوشی کا پرانا نام ہو۔ جسے چلم جوشی یا چلم جوشٹ بھی کہا جاتا ہے، یا پھر کوئی اس جیسا تہوار ہو۔ چترال میں اُس وقت کٹور خاندان کی حکومت تھی۔ جو یہاں پر 321 سال تک قائم رہی۔ شاہ کٹور ثانی کے دور میں اخونزادہ ازردام بابو قارہ کے بیٹے امیر عبد اللہ اخونزادہ کی چکیاتن میں شاہ کٹور ثانی سے ایک دفعہ ملاقات ہوئی۔ امیر عبداللہ اخونزادہ اسلام کا داعی اور پریکٹسنگ مسلمان تھا۔ شاہ کٹور نے اسے وادئی شیشی بھیجا، تاکہ وہ یہاں پر اسلام کی تبلیغ کرے۔ اس نے یہاں دروش، شیشی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں اسلام کی تبلیغ کی۔ یہاں کے اکثر لوگ انھی کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوئے۔‘‘
کیلاش، شیشی کوہ وادی کے اصل باشندے تھے، جو اسلام کی ترویج کے بعد یا تو مسلمان ہوگئے تھے، یا پھر یہاں سے ہجرت کرکے کیلاش وادیوں یعنی بمبوریت، بریر یا پھر ریمبور میں جا بسے تھے۔
شیشی کوہ وادی میں پالولہ یا پھالولہ ڈنگریکوار، گوجری اور کھو زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے، جب کہ اس سے اوپر واقع وادئی مڈاکلاشٹ میں زیادہ تر فارسی بولی جاتی ہے۔ کھوار زبان وادئی چترال میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ اس لیے وادئی شیشی کوہ میں بھی اس کے بولنے اور سمجھنے والے زیادہ تعداد میں ہیں۔ جہاں کہیں یہ زبان نہیں بھی بولی جاتی ہے، مگر وہاں پر بھی یہ سمجھی ضرور جاتی ہے۔ یوں یہ سارے چترال کی مرکزی زبان ہے، جو ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کے لیے بولی جاسکتی ہے۔ کھو قوم کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ کوئی جنگ جو قسم کے لوگ نہیں تھے، بل کہ انھوں نے اپنی حیثیت بہ طور سیاسی تنظیم اور باہمی ہم آہنگی رکھنے والوں کے منوائی۔ یہی حیثیت انھیں ان کے پڑوسیوں سے ممتاز کرتی ہے۔ امرا اور آدم زاد طبقہ شاہی خاندان سے تعلق رکھتا ہے، جن میں بہت سارے بہ شمول شاہی خاندان، ان تارکینِ وطن کی اولاد ہیں جو یہاں وسطی ایشیائی ریاستوں سے ہجرت کرکے پہنچے تھے۔ اس طرح سے باہر سے آنے والے لوگوں کا کھو قوم کی قائدانہ صلاحیتوں کو ابھارنے میں بہت بڑا کردار ہے۔
دوسری بڑی زبان یہاں پر پھالولہ یا جسے پالولہ ڈنگریکوار زبان بھی کہتے ہیں، بولی جاتی ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر قریبی علاقوں سے ہجرت کرکے یہاں پہنچے، جنھیں ڈنگریک کہا جاتا ہے۔ ان ہجرت کرنے والوں کی زیادہ تعداد کا تعلق چلاس کے علاقوں سے ہے۔ پھر یہاں پر بولی جانے والی تیسری زبان گوجری زبان ہے۔ گوجر بھیڑ بکریاں چرانے والے لوگ ہیں۔ وہ انھی جانوروں کو بیچ کر یا پھر ان کا دودھ، مکھن اور گھی بیچ کر گزارہ کرتے ہیں۔ جو ہمہ وقت نت نئے گھاس کے میدانوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ یہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پر ہجرت کرتے ہوئے ہر وقت عازمِ سفر ہوتے ہیں۔ یہ کسی بستی، کسی پہاڑ، کسی ندی نالے یا کسی منظر نامے میں پھنس کر نہیں رہتے، بل کہ ان کا نظریہ ہی شاید
نظر پہ بھار ہوجاتے ہیں منظر
جہاں رہیو وہاں ہرگز نہ رہیو
والا ہے۔ سوات اور اس کے ملحقہ علاقوں سے ہجرتے کرتے کراتے یہ یہاں دروش اور اس کے ارد گرد کے علاقوں خاص طور پر شیشی کوہ میں آئے اور پھر یہیں کے ہی ہو کر رہ گئے۔ گوجری زبان کو آخری ہند آریائی زبان کہا جاتا ہے۔ یہ شیشی کوہ وادی کے بہت سے دیہات میں بولی جاتی ہے۔ ہم چوں کہ ان تمام زبانوں سے نابلد تھے۔ ہمیں ان علاقوں میں جا کر اُردو زبان کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ لہٰذا ہمیں ایسے علاقوں میں جا کر کسی اُردو بولنے یا کم از کم اسے سمجھنے والے کی ضرورت ہوتی ہے۔ الحمدللہ کہ یہ لوگ نہ صرف اُردو زبان کو سمجھ رہے تھے، بل کہ وہ اسے بول بھی سکتے تھے۔
مرزا اللہ بھائی کہنے لگے کہ آپ اپنی سواریاں بہ شمول کار اور بائیکس یہ سامنے والے احاطے میں کھڑی کر دیں۔ یہ بھی اپنی ہی جگہ ہے۔ آپ کو چنداں فکر مند ہونے ضرورت نہیں۔ یہاں پر یہ بالکل محفوظ رہیں گی۔
اُس احاطے کا نام فہد بلاک تھا اور اُس میں ایک آرا مشین لگی ہوئی تھی۔ ہم نے وہاں پر اپنی گاڑی اور موٹر سائیکلیں کھڑی کر دیں۔ بائکرز دوستوں نے اپنے کپڑے تبدیل کیے۔ اپنی اپنی کچھ ضروری اشیا نکال کر چھوٹے بیگ یا شاپر وغیرہ میں الگ سے ڈال کر اپنے ساتھ تھام لیں۔ ہم نے بھی موبائل چارجر، ٹوتھ پیسٹ اور شیو بنانے کا سامان وغیرہ ایک چھوٹے بیگ میں ڈال کر ساتھ لے لیے۔ جب کہ بقیہ سامان اپنی گاڑی کے اندر ہی پڑا رہنے دیا۔ گوشت، پیاز اور ٹماٹر وغیرہ جیسی کھانے پینے والی اشیا انھیں دینے کی کوشش کی، تو انھوں نے صاف انکار کر دیا۔ کہنے لگے کہ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ آپ ہمارے مہمان ہیں۔ ہمارے پاس اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔ ہم یہ اشیا کیوں لیں؟ آپ خواہ مہ خواہ ہماری نیکیوں کی ضائع کرنے والی بات کر رہے ہیں، مگر جب ہم نے بار بار اصرار کیا کہ یہ چیزیں کل تک خراب ہوجائیں گی۔ تو جا کر وہ مانے۔ وہ بھی اس شرط پر کہ وہ صرف وہی چیزیں قبول کریں گے، جو خراب ہونے والی ہیں۔ جب کہ بقیہ چیزیں جن میں آلو، پیاز اور گھی وغیرہ شامل تھے…… وہ انھیں کسی صورت بھی قبول نہیں کریں گے۔
شیشی کوہ کے لوگ سادہ لوح ضرور تھے، مگر ان کے دل پہاڑ جتنے بڑے تھے۔ انھوں نے ہماری مہمان نوازی اور آؤ بھگت کے لیے وہ کچھ کر دکھایا جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ انھوں نے وہ کچھ کر دیا جو ہمارے وہم و گماں بھی نہ تھا۔ مہمان داری کا جو معیار انھوں نے قائم کر دکھایا، اُس کے متعلق تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ یہ لوگ زیادہ تر کچی مٹی سے بنی بڑی بڑی اینٹوں والے مکانوں میں رہتے ہیں۔ بالکل ویسی اینٹوں والے مکانوں میں ہمارے آبا و اجداد بھی رہا کرتے تھے۔ ہمارے گاؤں والے مکان بھی ایسی ہی ہاتھ سے بنائی گئی بڑی بڑی کچی اینٹوں سے بنائے گئے تھے، جنھیں انھوں نے بھی ہمارے اجداد کی طرح اپنے ہاتھوں سے اپنی زمینوں کی چکنی مٹی سے تیار کیا تھا، جنھیں ہم اپنی لوکل پنجابی زبان میں ’’نولے‘‘ کہتے تھے۔ تار گاؤں میں ٹیڑھی میڑھی تنگ گلیاں تھیں، جیسی کہ آج سے آٹھ نو سو سال پہلے مڈیول پیریڈ میں بسائے گئے پرانے دور کے شہروں یا گاؤں میں ہوتی تھیں۔ جس کی تنگ گلیوں میں نکاسئی آب کے لیے ایک نالی بھی چل رہی ہوتی تھی اور اسی نالی کے ساتھ ساتھ باقی بچی تھوڑی سی جگہ پر چل کر اپنی مطلوبہ جگہ یا مکان تک پہنچا جاتا تھا۔
یہ گلیاں بھی بالکل اسی طرز پر بنی تھیں، بھول بھلیوں والی…… جن میں ہمارے ہاں پائی جانے والی نالی کے گندے پانی کی بہ جائے شرابِ طہور کے جام چھلکاتا کسی صاف شفاف چشمے کا پانی بہتا ہوا اس گاؤں سے اور بھی نیچے بہتے دریائے شیشی میں جا کر گر رہا تھا۔
یہ سارا گاؤں دریا کی جانب جھکتی ہوئی ایک سلیب کی طرح ایک طرف کو جھکا ہوا تھا، جس کی تنگ گلیوں میں سے گزرتے ہوئے ہم نیچے سے نیچے دریا کی جانب اترتے جا رہے تھے۔ ان گلیوں میں خاموشی تھی۔ پیار و محبت کے گیتوں کی مدھر دھن بج رہی تھی۔ مکانوں کے اندر اُگے پھل دار درختوں کے پھل ان کی دیواروں پر سے گلی کے اندر جھانکتے اپنی خوش بُو پھیلا رہے تھے، جن پر شہد کی مکھیاں بھنبھناتی ہوئی گھوم پھر کر شہد کشید کر رہی تھیں۔ دور نیچے کی جانب دریائے شیشی کوہ اپنی روانی میں مست جھومتا جھولتا، اٹھکیلیاں کرتا اپنی اگلی منزل کی جانب رواں دواں تھا اور ہم مرزا اللہ کے مہمان خانے کی جانب چلتے چلے جا رہے تھے۔
فطرت کی تمام تر رنگا رنگی سے سجا یہ دور دراز گاؤں ایک چھوٹی سی دنیاوی جنت کا نقشا پیش کر رہا تھا، جس کے درختوں پر طرح طرح کے میوے لٹک رہے تھے۔ نشے کی گولیاں تھامے انگور سنگچور تھے۔ سبز پوشاک اوڑھے جابہ جا لٹکتے اخروٹ کی گیندیں، گلی میں کھیلتے مختلف قد و قامت اور رنگوں والے چھوٹے بڑے بچوں کی طرح کہیں لال کہیں کالے، تو کہیں سفید ہو ہو جاتے شہتوت تھے۔ جن کی گالیں کالا کلو سیب جیسی سرخی مائل ہوتی ہیں۔ سیب ابھی اپنی بالی عمریا میں گم سم ہرے بھرے اور سبز تھے۔ کوئی بھوکا شکاری انھیں ان کی کچی عمریا میں ہی اچک کر نہ لے جائے۔ اسی لیے شاید وہ بھی ایسے لوگوں کی قاتل نگاہوں سے بچنے کے لیے اپنا رنگ بدل کر اپنی ماں کے آنچل میں چھپے بیٹھے تھے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
