گذشتہ کچھ عرصے سے مختلف سماجی اور نظریاتی گروہوں سے وابستہ افراد کے رویوں پر سوشل میڈیا پر متعدد تحریریں نظروں سے گزریں۔ اُن میں عمومی شکایت یہ تھی کہ تنظیم یا تحریک سے وابستہ نوجوان اکثر نامناسب زبان اور غیر سنجیدہ اندازِ گفت گو اختیار کرتے ہیں۔ تاہم جب اُن اعتراضات کی اصل بنیاد اور اعتراض کرنے والوں کا اپنا رویہ دیکھا جائے، تو وہاں بھی غیر متوازن اور بعض اوقات حد سے زیادہ یک طرفہ تنقید، تضحیک اور مخالف نظریے کو ہر سماجی و قومی مسئلے کا ذمے دار ٹھہرانے کا رجحان صاف دکھائی دیتا ہے۔
یہ رویہ دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ افراد نے مسلسل الزام تراشی، تمسخر اور زہر افشانی کو معمول بنا رکھا ہے اور جب انھی کے طرزِ عمل کے جواب میں متعلقہ گروہ یا تنظیم کے کسی وابستہ فرد نے تلخ انداز میں بات کی، تو فوراً ’’اخلاقیات‘‘، ’’بردباری‘‘ اور ’’شایستگی‘‘ کی دہائی دی جانے لگتی ہے۔
اگر کوئی مسلسل تنقید کرے، طنزیہ جملے کسے اور ذاتی حملے کرے، تو جواب میں کسی ردِعمل کا آنا ایک فطری انسانی رویہ ہے۔ ایسے میں صرف دوسروں کو ہی غیر مہذب قرار دے کر خود کو معصوم اور مظلوم ثابت کرنا بھی کسی دیانت داری یا فکری بلوغت کی علامت نہیں۔
یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ ہر نظریاتی یا سماجی گروہ کے نمایندوں کو چاہیے کہ وہ اپنے گفتار، زبان اور لہجے میں توازن، تہذیب اور سنجیدگی برقرار رکھیں۔ ساتھ ہی ساتھ، تنقید کرنے والوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ خود احتسابی کریں اور دوسروں کے صبر و برداشت کو کم زوری نہ سمجھیں۔
آج ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں نئی نسل چاہے وہ کسی بھی گروہ، تنظیم یا معاشرتی حلقے سے وابستہ ہو، عمومی طور پر اس ماحول کا اثر قبول کر رہی ہے، جس میں سوشل میڈیا پر طنز، طعنہ زنی، بدزبانی اور سنسنی خیزی عام ہو چکی ہے۔
ہم نئی نسل کو پرانی دہائیوں کے پیمانوں پر پرکھنے کی کوشش تو کرتے ہیں، لیکن ان کی تربیت، ماحول اور سیکھنے کے ذرائع بالکل مختلف ہیں۔ اس صورتِ حال میں محض تنقید یا سرزنش سے اصلاح کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ دراصل، اکثر اوقات یہی طعن و تشنیع نوجوانوں کو مزید سخت اور ردِعمل پر مجبور کر دیتی ہے۔ جب آپ خود کسی کو تنگ کریں گے اور جواب میں ویسا ہی رویہ دیکھیں گے، تو پھر اُس پر شکایت کا کیا جواز؟
اصلاح کے لیے حکمت، سنجیدہ تربیت، مستقل راہ نمائی اور مثبت مثالوں کی ضرورت ہے، یہ کوئی آسان یا سطحی عمل نہیں۔
اگر ہم واقعی معاشرتی یا فکری بہتری چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنے طرزِ مکالمہ، زبان اور دلیل کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
اختلاف رائے ضرور کریں، سوالات بھی اٹھائیں، لیکن تہذیب، سچائی اور دیانت کے دائرے میں رہ کر۔ ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے کہ ہم اپنے نظریے یا تنظیم کی نمایندگی کرتے ہوئے نہ صرف خود کو باوقار رکھیں، بل کہ آنے والی نسل کو بھی سکھائیں کہ گفت گو میں اختلاف کے باوجود احترام کا رشتہ باقی رہنا چاہیے۔
ورنہ نہ تنقید میں وزن رہتا ہے، نہ جواب میں معنویت۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
