پنجاب: بلدیاتی نظام پر چند اعتراضات

Blogger Fayaz Hussain Gailani

موصولہ اطلاع کے مطابق پنجاب انتظامیہ نے پنجاب میں بلدیاتی نظام کے طریقۂ کار کا اجرا کر دیا ہے اور خبر یہ ہے کہ پنجاب میں بلدیاتی انتخاب اسی سال میں متوقع ہیں۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ یہ انتخابات موسمِ گرما کے خاتمے اور خزاں کے آغاز میں یعنی عیسوی سال کے مطابق شاید اکتوبر یا نومبر میں منعقد ہوں گے۔ یہ جو نظام مجوزہ طور پر یا میڈیا پر رپورٹ کیا گیا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ بالکل مناسب نہیں، بل کہ واضح طور پر محسوس ہو رہا ہے کہ پنجاب حکومت کا مقصد بلدیاتی نظام کے اجرا کے بہ جائے سیاسی مفادات کا حصول ہے۔ کیوں کہ اس میں درجِ ذیل نِکات قابل غور ہیں:
٭ یہ انتخابات غیر جماعتی بنیاد پر ہوں گے۔
٭ یہ انتخابات ضیاء الحق کے بلدیاتی طریقۂ کار یعنی ہر وارڈ سے ایک ممبر بننے کا عمل اور پھر چیئرمین اُنھیں ممبران سے ہوں گے، بل کہ ضیاء الحق نے تو اس کے ساتھ ضلع کونسل اور میونسپل کارپوریشن کا طریقۂ کار الگ کیا تھا، یہاں سب یک جا کیا گیا ہے۔
٭ ضلع کونسل کو ختم کر دیا گیا ہے۔
٭ ضلع کے لیول پر تحصیل کونسل کے ذمے داران کی کمیٹی ہوگی کہ جس کو بہ راہِ راست ڈپٹی کمیشنر کے تابع کیا گیا ہے۔
٭ سب سے مضحکہ خیز شق جو اس میں شامل ہے، تعلیم کے حوالے سے ہے۔ وہ یہ کہ کونسلر کے لیے میٹرک، وائس چیئرمین کے لیے ایف اے جب کہ چیئرمین صاحب کے لیے بی اے کی شرط لاگو کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ اس میں چند دوسرے نِکات ہیں کہ جن پر بات کرنا ضروری نہیں، لیکن اوپر جو پانچ نِکات بیان گئے ہیں، وہ ہماری نظر میں انتہائی متنازع ہیں، جمہوریت کی روح کے خلاف ہیں اور اگر اس طریقۂ کار پر عمل درآمد ہوگیا، تو یہ بلدیاتی نظام عام شخص کے لیے کوئی بہتر نتائج نہ دے سکے گا۔ ویسے چند اندرونی حلقوں کے مطابق یہ قانون بنانے کا مقصد بلدیاتی انتخابات کو مزید تاخیر کا شکار کرنا ہے، بل کہ ان کا انعقاد ہی نا ممکن کرنا ہے۔ کیوں کہ ان نِکات کو لازماً کوئی نہ کوئی شخص عدالت میں چیلنج کر دے گا اور ہمارا نہیں خیال کہ عدالت اس میں دخل انداذی نہ کرے گی…… اور اگر عدالت میں کوئی نہیں بھی جاتا، تو مسلم لیگ (ن) ایک بڑی جماعت ہے، وہ خود کسی سے بھی ایک پٹیشن کروا کر مطلوبہ مقاصد حاصل کرسکتی ہے۔
بہ ہرحال آئیں، ذکر شدہ نِکات پر ایک ایک کرکے بحث کرتے ہیں کہ ان میں کتنی خامیاں ہیں اور کس بدنیتی سے یہ قوانین مرتب کیے گئے ہیں۔
٭ غیر جماعتی انتخابات:۔ دنیا بھر میں جہاں بھی جمہوریت ہے، بے شک برائے نام ہی کیوں نہ ہوں، وہاں اس طرح غیر جماعتی انتخابات کروانے بارے سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ غیر جماعتی انتخابات کا مطلب ایک دفعہ پھر سیاست میں پیسے کی آمد، مفادات کا تحفظ، کرپشن اور سب سے بڑھ کر سیاسی جماعتوں کی شکست و ریخت ہے۔ کیوں کہ جب ایک شخص پیسا، برادری یا بے شک نیک نامی کی بنیاد پر چیئرمین بنے گا، تو اُس کو سیاسی تحفظ اور ترقیاتی فنڈ کے لیے لازماً کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونا ہوگا۔ پنجاب میں تو زیادہ امکان ن لیگ کا ہے۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ جس طرح کا ہمارا سیاسی کلچر ہے، اُس کا منطقی انجام یہ ہوگا کہ ہارنے والا دوسری جماعت میں جائے گا، اور جماعتی عہدے پھر اُن کو دینا مجبوری ہوگی۔ اس طرح نہ صرف جماعت کے پرانے کارکن بد دِل ہوکر غیر متحرک ہوجائیں گے، بل کہ جماعتوں کی نظریاتی اساس تباہ ہوجائے گی۔ بالکل ویسے ہی جیسے 1985ء کے انتخابات نے پاکستانی سیاست کو آلودہ کر دیا تھا۔ پھر اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ ذات، برادری اوپر آجائے گی اور باہمی دشمنیاں پروان چڑھیں گی۔
پنجاب کے ایک سابقہ پولیس افسر نے باقاعدہ تحریری طور پر یہ سرکاری بیان دیا تھا کہ پنجاب کے دیہی علاقوں کی 80 فی صد دشمنیوں اور نفرت کی وجہ آپ کا بلدیاتی غیر جماعتی نظام ہے۔
٭ ایک ممبر ایک وارڈ:۔ گو کہ یہ طریقہ کچھ زیادہ نقصان دِہ نہیں اور اس کے کچھ مثبت اثرات بھی ہوسکتے ہیں، لیکن پاکستان کے سیاسی و ثقافتی حالات میں اس کے منفی اثرات نسبتاً زیادہ ہیں۔ اس طریقۂ کار سے چوں کہ حلقہ بہت محدود ہوتا ہے، تو اس وجہ سے امیدوران تو رہے ایک طرف، اُن کے رشتے داروں اور دوستوں کے درمیان باہمی رقابت انتہا پر پہنچ جاتی ہے اور اس کا منطقی نتیجہ آپس میں نفرت اور دشمنی بنتا ہے، جو معاشرے پر بہت غلط طور پر آیندہ والی نسلوں تک خرابی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے اب بھی موجود ہیں۔
٭ ضلع کونسل کا خاتمہ:۔ چوں کہ بلدیاتی نظام کا اول مقصد ترقیاتی کام ہوتے ہیں، یعنی محلہ کی سطح پر گلیوں اور راستوں کی تعمیر، سیورج کی بہتری، صاف پانی کی دست یابی، سکولوں اور کمیونٹی سینٹر کی تعمیر اور بڑھوتی وغیرہ، سو اس کے لیے ضلع کونسل کی ایک مرکزی باڈی کا ہونا ضروری ہے کہ جو نہ صرف بجٹ کا منصفانہ تعین کرے، بل کہ انتظامی اور سیاسی نظام پر بھی کنٹرول رکھے۔ اس لیے ضلع کونسل کا خاتمہ بہت ہی غلط ہے۔
٭ تحصیل کونسل کے سربراہان کی کمیٹی:۔ ہمارے خیال میں یہ شق نہایت ہی جمہوریت دشمن اور (ن) لیگ کی بدنیتی پر مشتمل ہے۔ یہ واضح نظر آرہا ہے کہ (ن) لیگ اس کے ذریعے منتخب بلدیاتی نمایندگان کا گلا گھونٹ کر رکھنا چاہتی ہے۔ کیوں کہ کمیشنر بہ راہِ راست صوبائی حکومت کے ماتحت ہوتا ہے، سو اُس کو آپ نے بلدیاتی منتخب نمایندوں کے اوپر مسلط کر دیا ہے، لیکن یہ خیال رہے کہ آپ کے تصور میں شاید یہ بہت کارآمد ہوگا اور آپ ایک ڈپٹی کمیشنر کے ذریعے منتخب بلدیاتی نمایندوں کو اپنی سیاسی حمایت کے لیے استعمال کر لیں گے، لیکن عملاً یہ ممکن نہیں۔ کیوں کہ عوام کی رائے تو اُن پر 100 فی صد اثر انداز ہوتی ہے۔ پھر عوامی نمایندگی کا اپنا ہی ایک نشہ ہوتا ہے۔ ایک عوامی نمایندہ کسی صورت میں بھی ایک ڈپٹی کمیشنر کی اتھارٹی کو تسلیم نہیں کرسکتا، تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا کہ آئے دن سیاسی قیادت اور انتظامی افسران کے درمیان پھڈا بنتا رہے گا، جس سے سیاسی معاملات تو خراب ہونے ہی ہیں، انتظامی معاملات میں بھی تاخیر و منفی اثرات پڑیں گے۔ یعنی ہم ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ ہر طرح کی جمہوریت میں ہمیشہ سے یہ اُصول رہا ہے کہ انتظامیہ منتخب قیادت کے نیچے کام کرتی ہے۔ پالیساں منتخب نمایندے تشکیل دیتے ہیں، کیوں کہ اُن کے نتائج کے ذمے دار بھی وہی ہوتے ہیں اور عوام کی جواب دہی بھی اُنھیں سے ہوتی ہے، جب کہ انتظامی افسر تو حکومتی ملازم ہوتے ہیں۔ نہ وہ عوام کو جواب دہ ہوتے ہیں، نہ اُن کا عوام سے بہ راہِ راست تعلق ہوتا ہے، خاص کر عمومی ترقیاتی کاموں یا معاشرتی و سیاسی امور کے حوالے سے۔ تو آپ کس طرح ایک ڈپٹی کمیشنر کو عوامی نمایندوں کے اوپر چوہدری بنا کر بٹھاسکتے ہیں۔ سو ہم حکومتِ پنجاب سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ فوری طور پر اس متنازع شق کو مجوزہ قانون سے ختم کریں اور اس کی جگہ بے شک تحصیل و میونسپل کمیٹی کے چیئرمینوں میں سے کسی ایک کو اس کا سربراہ بنا کر ڈپٹی کمیشنر، تحصیل دار اور ڈی پی او کو بہ راہِ رست ان کے حکم کا پابند کیا جائے۔
٭ تعلیم کی شرط:۔ اس قانون کی سب سے بکواس اور قابلِ اعتراض شرط ’’تعلیم‘‘ کی ہے کہ جو کسی بھی جمہوری معاشرے میں نافذ العمل ہے، نہ اس کو برداشت ہی کیا جاتا ہے۔ ویسے پاکستان کی حد تک یہ اس لحاظ سے بھی قابلِ اعتراض ہے کہ یہاں قومی اسمبلی کا ممبر بننے کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں، یعنی آپ بغیر میٹرک کیے اس ملک کے وزیرِ اعظم بن سکتے ہیں، لیکن چند سو افراد پر مشتمل ایک چھوٹی سی وارڈ کے کونسلر نہیں بن سکتے، سبحان اﷲ!
جب جنرل مشرف نے یہ شق لاگو کی تھی، تو تب بھی ہم نے اس پر بہت اعتراض کیا تھا کہ جب آپ عوامی نمایندگی کی بات کرتے ہیں، تو اُصول عوامی حمایت ہونا چاہیے۔ ہم نے خلفائے راشدین سے لے کر عمر بن عبدالعزیز تک، صلاح الدین ایوبی سے لے کر عثمانی و مغل بادشاہوں تک کی مثال دی تھی کہ آخر اُن کے پاس کون سی گریجویشن کی ڈگری تھی۔ ہم نے اِس دور میں ابراہام لنکن سے لے کربرطانیہ کے سابق وزیرِاعظم جان میجر تک کی مثال دی تھی۔ اب اس دور میں اس کی تازہ مثال بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی ہیں، لیکن نتائج کے حوالے سے آپ دیکھ لیں اُن لوگوں کی کارگردگی۔ در حقیقت سیاسی عہدہ پالیسی ساز ہوتا ہے اور پالیسی سازی کے لیے آپ کو کسی خاص ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی، بل کہ آپ کے اندر قدرتی صلاحیت، دانش اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کو عام آدمی کے مسائل کا ادراک اور شعور ہونا چاہیے۔ ہم عمومی زندگی میں دن بھر ڈگری سے لیس ڈنگر دیکھتے ہیں، جب کہ بہت سے بہ ظاہر اَن پڑھ لوگ بہت کمال کی دانش رکھتے نظر آتے ہیں۔
پھر یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ایک یونین کونسل یا تحصیل کونسل کا چیئرمین اپنے دائرۂ اختیار میں زیادہ تر ترقیاتی کاموں اور یا پھر انتظامی معاملات کا ذمے دار ہوتا ہے۔ اس میں رسمی تعلیم کا کوئی خاص کردار تو ہوتا نہیں۔ اگر آپ زیادہ گہرائی میں جائیں، تو آپ کَہ سکتے ہیں کہ چیئرمین کمیونٹی سینٹر کو بھی کنٹرول کرتا ہے، تو پھر یہ سوال پیدا ہوگا کہ ہسپتال کے معاملات کے لیے اُس کے پاس میڈیکل کا علم ہونا چاہیے۔ تعلیم کے معاملات کے لیے تمام علوم پر دسترس ہو۔ بلدیات کے حوالے سے اُس کے پاس انجینئرنگ کے تمام شعبہ جات کی سند ہو۔ جنگلات، زراعت، سوشل سائنس، سپورٹس…… مطلب وہ کس کس موضوع کی ڈگری لے؟سو یہ ایک فضول اور مضحکہ خیز شرط ہے۔ اس کے لیے ہم کو ایک عقلِ سلیم رکھنے والا باکردار شخص مطلوب ہے اور اس کا تعین دو ہی طرح سے ہوسکتا ہے ۔ ایک الیکشن کمیشن یہ چیک کرلے کہ مذکورہ تھانہ وغیرہ میں اس کا ریکارڈ کیا ہے؟ دوم، اس کا فیصلہ حلقہ کے عوام بہتر کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی بھی شخص کسی جرم میں ملوث نہیں اور حلقہ کے عوام کا مینڈٹ رکھتا ہے، تو پھر یقینا اُس کا حق ہے کہ وہ اپنے حلقہ کی نمایندگی کرے اور سیاسی قیادت کو سنبھال لے۔ کوئی ڈگری کہ جو محض کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے، اس کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ اب اگر وہ ڈیلیور نہیں کرتا، تو عوامی احتساب کا سامنا وہ خود کرے گا اور یہ یقین رکھیں کہ عوامی احتساب بہت کڑا اور سخت ہوتا ہے۔ ویسے بھی عوامی دانش پر یقین رکھنا ہوگا کہ اگر عوام ایک ڈگری ہولڈر کو ووٹ نہیں کرتے، بل کہ کسی عمومی تعلیم سے دور شخص کو چنتے ہیں، تو کوئی وجہ تو ہوگی اور بے شک یہ وجہ بہت معقول ہوگی۔ یہ بات رسمی ڈگری ہولڈر کے سوچنے کی ہے کہ اس پر ایک غیر ڈگری ہولڈر کو عوام نے کیوں ترجیح دی؟ یہ تو سرے سے حکومت کا مسئلہ نہیں اور نہ حکومت کو اس میں دخل اندازی کی اجازت ہی ہونی چاہیے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے