ریاست سوات: ادغام کے بعد کی یادیں

Blogger Riaz Masood

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
سوات ریاست کے ادغام کے بعد، رائج نظام کچھ عرصے تک چلتا رہا، جب تک ریاست کے مختلف محکموں کے مقدر کا فیصلہ نہیں ہوگیا۔ یہ ایک مشکل کام تھا اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکشن آفیسر، مسٹر بنگش نے سیدو بوائز ہوسٹل میں اپنا دفتر قائم کیا۔ اگرچہ اُس وقت میں اُن کا ناقد تھا اور یہاں تک کہ اُن کے خلاف ایک انگریزی روزنامے میں لکھا بھی، مگر شاید اس کام کے لیے وہ صحیح آدمی تھے۔ وہ مختلف ریاستی محکموں کے نمایندہ مقامی اہل کاروں کے ساتھ بہت گرم جوشی سے پیش آ رہے تھے۔ مَیں ریاستی "P.W.D” کی نمایندگی کر رہا تھا اور مجھے روزانہ ان کے کیمپ آفس میں جانا پڑتا تھا۔ ہم نے آہستہ آہستہ ایک دوسرے کے ساتھ سمجھوتا کرلیا، اس لیے خوش قسمتی سے ہم اپنے اختلافات کو حل کرسکے اور مختصر مدت میں ریاستی "P.W.D” کے انضمام کو اس طور مکمل کرلیا، جس پر فریقین مطمئن تھے…… لیکن مسئلہ ریاستی ملیشیا کے خاتمے کا تھا۔ خیر، وہ میرے دائرۂ کار میں نہیں تھا۔
مزید یہ کہ، چند ہزار سڑکی کارکن اور اُن کے افسران کا مسئلہ بھی ابھی لاینحل تھا، کیوں کہ اُن کا ایک ایسا سروس سٹرکچر تھا، جو ریاستی فورس کے مشابہ تھا۔ ان میں حوال دار، جمع دار، صوبے دار اور دو صوبے دار میجر شامل تھے۔ روڈ کمانڈر اور پولیس کمانڈر پہلے ہی صوبائی پولیس میں کھپ چکے تھے۔ بالآخر انتہائی غور و خوض کے بعد، چند لوگوں نے ریٹائرمنٹ کا انتخاب کیا۔ اُنھیں ایک خاص قسم کا ہتھیار اور رینک کے مطابق ایک مخصوص رقم دے کر فارغ کر دیا گیا۔
جو لوگ خدمات جاری رکھنا چاہتے تھے، اُنھیں حکومت (اب) خیبر پختونخوا کے "B/R” محکمے کے سپرد کر دیا گیا۔ اُن سے سیکڑوں بائی سائیکلز جمع کی گئیں اور ریاستی اسٹور میں ذخیرہ کر دی گئیں۔ اس مرحلے پر، مجھے مسٹر بنگش کی دانش مندی اور مہارت کا اندازہ ہوگیا۔ اُنھوں نے ایک پیچیدہ کام کو با آسانی سر انجام دیا۔
آخری مشکل کام ریاستی مسلح ملیشیا کے خاتمے کا تھا۔ اس ادارے کی نمایندگی کرنے والا شخص اکثر پاکستانی حکام کے ساتھ تصادم کے دہانے پر پہنچ جاتا۔ یہ سب سے پیچیدہ مسئلہ تھا، لیکن آخرِ کار ٹیم اور فورسز کے افسران کے تدبر کی بہ دولت حل ہو گیا۔ ان میں بھی جو لوگ خدمات جاری رکھنا چاہتے تھے، اُنھیں ایف سی یا پولیس کے محکمے میں ضم کر دیا گیا اور جو لوگ ریٹائرمنٹ لینا چاہتے تھے، اُنھیں اپنے رینک کے مطابق ایک مقررہ رقم اور اپنی پسند کے ایک قسم کے ہتھیار کے ساتھ عمر بھر کی مفت لائسنس دی گئی۔
نائب سالار عمرا خان کو بہ راہِ راست ڈی اُو، ایف سی (ضلع افسر فرنٹیئر کانسٹیبلری) کے طور پر مقرر کیا گیا۔
کپتان سید جہان خان کو عارضی طور پر ریاستی نائب سالار بنایا گیا، تاکہ ریاستی فورس کے ہر رُکن کے کاغذات پر دستخط کریں۔ اُن تمام لوگوں کا شکریہ جو اس کام میں شامل تھے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے