دمہ سانس کی ایک دائمی حالت ہے، جو دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ اس کے پھیلاو کے باوجود، دمہ کے بارے میں بے شمار غلط فہمیاں ہیں، جو غلط معلومات اور غلط فہمی کا باعث بن سکتی ہیں۔ اس بلاگ میں، ہمارا مقصد دمہ کے بارے میں عام غلط فہمیوں کو دور کرنا اور اس حالت کے بارے میں آگاہی اور سمجھ کو بڑھانے کے لیے درست معلومات فراہم کرنا ہے۔
قارئین! حقائق پر روشنی ڈال کر، ہم اُمید کرتے ہیں کہ دمہ کے شکار افراد اور ان کے پیاروں کو اس حالت کو بہتر طریقے سے سنبھالنے اور ان کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے بااختیار بنائیں گے۔
سوال:۔ اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک یا دونوں ہی دمے کا شکار ہوں، تو بچوں میں مرض منتقل ہونے کے کس قدر امکانات پائے جاتے ہیں؟
ج:۔ اگردونوں ہی اس عارضے میں مبتلا ہوں، تو بچے میں 50 فی صد اور اگر ایک مرض اس کا شکار ہے، تو 25 فی صد امکانات پائے جاتے ہیں۔کیوں کہ یہ مرض جینز کی شکل میں منتقل ہوتا ہے۔ اگرشادی کے بعد مرض کی تشخیص ہو، تو گھبرانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ کیوں کہ بہتر علاج اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ نارمل زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ پھر بھی اگر اس ضمن میں احتیاط برتی جائے، تواچھی بات ہے، تاکہ آنے والے بچے ہر طرح سے صحت مند زندگی گزاریں۔
سوال:۔ اگر بچہ دَمے کا شکار ہو یا کسی بچے میں دَمے کی علامات ظاہر ہوں، تو والدین کیا کریں؟
ج:۔ عام طور پر والدین کے لیے کم سِن بچوں میں ادویہ منیج کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بچوں میں مرض کی علامات ظاہر ہوں، تو عموماً والدین جنرل فزیشن سے رجوع کرتے ہیں، جو کئی کئی بار اینٹی بائیوٹکس کا کورس مکمل کرواتے ہیں، مگر اِفاقہ نہیں ہوتا۔کیوں کہ اینٹی بائیوٹکس سانس کی نالیوں کی سوزش ختم نہیں کرتیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ مرض کی علامات ظاہر ہوتے ہی ماہرِ امراضِ سینہ (Chest Specialist) سے رابطہ کیا جائے۔ ہمارے پاس بعض بچے اُس وقت آتے ہیں، جب وہ چھے چھے بار اینٹی بائیوٹکس کا کورس مکمل کرچکے ہوتے ہیں۔
سوال:۔ کہا جاتا ہے کہ ’’دَمہ، دَم کے ساتھ جاتا ہے۔‘‘ اس بات میں کہاں تک صداقت ہے؟
ج:۔ یہ بالکل غلط تصور ہے۔ ایسا اُس وقت سمجھا جاتا تھا، جب جدید ادویہ دریافت نہیں ہوئی تھیں اور علاج کے لیے اتائیوں سے رجوع کیا جاتا تھا۔ اگرچہ اس رجحان میں کمی آئی ہے،لیکن اب بھی دیہات اور چھوٹے شہروں میں اتائیوں سے علاج کروایا جاتاہے۔ دورِ جدید میں دَمہ ناقابلِ علاج یا جان لیوامرض ہرگز نہیں رہا، یہ اب قابلِ علاج مرض ہے اور اس پر مکمل طور پر قابو رکھا جاسکتا ہے۔ بہ شرط یہ کہ معالج کی ہدایت پر عمل کیا جائے۔ نیز، علاج کے ساتھ احتیاطی تدابیر اور طرزِ زندگی میں مُثبت تبدیلیاں بھی ضروری ہیں۔ اگر مرض پر قابو رہے، توضروری نہیں کہ مریض تا عمر ادویہ پر انحصار کرے۔ البتہ اُسے محتاط زندگی بسر کرنا ہوگی۔ تاہم، اس ضمن میں مریض اور اہلِ خانہ کی کاؤنسلنگ ضروری ہے، تاکہ ا دویہ کے علاوہ راہ نما اُصولوں سے بھی آگاہ کیاجاسکے۔ خود ڈاکٹر کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ مریض کو کم سے کم دوا استعمال کروائی جائے۔ دیکھیں، عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ علاج کی بہ دولت مریض بالکل ٹھیک ہوجاتا ہے، لیکن کچھ عرصے بعد دوبارہ علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ اس وقت مریض اور ڈاکٹر کا کام اس کیفیت پر قابو پاناہوتاہے، لہٰذا مریض اگر خود کو مرض کے ساتھ ایڈجسٹ کرلے، تو وہ نارمل زندگی گزار سکتا ہے۔
سوال:۔ غذا سے متعلق بھی کئی مفروضات عام ہیں، تو اس بارے میں بھی کچھ بتائیں؟
ج:۔ جی بالکل ایسا ہی ہے۔ عام طور پرکیلے، چاول، دودھ وغیرہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دَمے کے مریضوں کے لیے مضر ہیں، حالاں کہ ان اشیا کے استعمال کا مرض سے بہ راہِ ِراست کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا۔ البتہ بعض افراد کو کھانے پینے کی مخصوص اشیا سے ’’فوڈ الرجی‘‘ ہوسکتی ہے۔مثلاً: کچھ افراد کو جھینگے کھانے سے اسکن الرجی ہوجاتی ہے،توبعض کو گندم سے۔ یہاں اس کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ دَمہ چھوت کی بیماری ہرگز نہیں۔ مریض کے ساتھ کھانے پینے اور ساتھ رہنے میں کوئی حرج نہیں، تاہم تھوڑی بہت احتیاط کرلی جائے۔
سوال:۔ کیا دَمے کے مرض کا عمر سے بھی کوئی تعلق ہے؟
جواب:۔ جی نہیں، اس مرض کا عمر کے کسی خاص حصے سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ کسی بھی عمر کے مرد و خواتین، حتیٰ کہ بچوں کو بھی لاحق ہوسکتا ہے۔
سوال:۔کیا ’’انہیلر‘‘ (Inhaler) استعمال کرنے کا مطلب ہے کہ دمہ شدید ہے؟
جواب:۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انہیلر کا استعمال شدید دمہ کی نشان دہی کرتا ہے۔ یہ دراصل دمہ کا بنیادی علاج ہیں اور علامات کی شدت اور تعدد کی بنیاد پر تجویز کیے جاتے ہیں۔ انہیلر کی دو اہم قسمیں ہیں:
٭ فوری ریلیف (ریسکیو) انہیلر:۔ یہ دمہ کے دورے کے دوران میں فوری طور پر ریلیف فراہم کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
٭ طویل المدت کنٹرول والے انہیلر:۔ یہ علامات کو منظم کرنے اور روکنے کے لیے روزانہ استعمال کیے جاتے ہیں۔ انہیلر کا استعمال لازمی طور پر دمہ کی شدت کی نشان دہی نہیں کرتا، بل کہ مناسب انتظام کی ضرورت کو ظاہر کرتا ۔
سوال:۔ وہ کون سی احتیاطی تدابیر ہیں، جنھیں اختیارکرکے کنٹرول رکھنا ممکن ہے؟
ج:۔ خوراک، ماحول اور عادات اس مرض کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لہٰذا وہ غذائی اشیا، جن سے الرجی ہو، ان کا استعمال ترک کردیں۔ عام طور پر معالج ٹھنڈی، ترش اور کھٹی چیزوں سے پرہیز بتاتے ہیں،تاکہ مریض کا گلا خراب اور سینے کا انفکشن نہ ہو۔ پھر مریض اپنے اطراف کے ماحول سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے خاص احتیاط برتے۔ جیسا کہ کھیتوں اور کیمیکل فیکٹریوں میں کام کرنے والے اپنا پیشہ نہیں چھوڑ سکتے، لیکن منھ پر ماسک لگانے، دورانِ کام تھوڑا تھوڑا وقفہ لینے اور کچھ وقت کے لیے اس ماحول سے باہر رہنے جیسے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔
اگر کسی کو پرفیوم، مچھر کُش ادویہ یا میٹ وغیرہ سے الرجی ہے، تو ان کا استعمال نہ کیا جائے۔ تمباکو نوشی نہ کی جائے۔
علاوہ ازیں،جس خاندان میں الرجی کی شکایات ہوں، وہاں کے مکین خاص احتیاط برتیں۔ صفائی نصف ایمان ہے اور اسلام کا یہ سُنہرا اصول، دَمے کے مرض کے لیے بہت کارگر ثابت ہوتا ہے۔ پانچ وقت وضوکرنا ہمیں ناک، کان، گلے، منھ اور ہاتھ پاؤں کی صفائی کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
