دو انتہاؤں کے بیچ گزرتی ہماری زندگی

Blogger Ikram Ullah Arif

حسبِ معمول سماج دو حصوں میں تقسیم ہے:
فریقِ اول، مذہبی ہے یا مذہبی سیاسی۔
فریقِ دوم، سیکولر اور لبرل ہے۔
فریقِ اول نے گذشتہ سال سے ایک ماحول بنایا ہوا ہے، جس میں صیہونی مظالم کی کھلم کھلا مخالفت ہورہی ہے۔ جلسے، جلوس، ملین مارچ، سیمینار، کانفرنسیں اور بہت کچھ ہے، جس کا مقصد اہلِ غزہ سے ہم دردی ہے۔
اس طرح کچھ غیر سرکاری تنظیموں جیسا کہ الخدمت فاؤنڈیشن اور حکومتِ پاکستان نے مقدور بھر نقدی اور خوراکی مواد پر مشتمل امداد غزہ تک پہنچائی بھی ہے، جس کے لیے مصر اور اُردن کے راستے استعمال کیے گئے۔ اخلاقی، جذباتی اور انسانی بنیادوں پر مظلومین کے ساتھ یہ ہم دردی لازم اور برمحل ہے…… لیکن اس معاملے میں جب حد سے زیادہ جذباتیت در آئی، تو پھر ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے مظاہروں میں شدت اور تشدد دیکھنے کو ملا۔ مثلاً: غیر ملکی مصنوعات سے جب بائیکاٹ کی مہم چلی، تو کچھ شہروں میں موجود غیر ملکی ’’فوڈ چینز‘‘ میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ ان بے تکے واقعات میں وہ لمحہ بھی آیا،جب پنجاب کے شہر شیخوپورہ میں ایسے ہی ایک احتجاج میں ایک پاکستانی معصوم شہری مارا گیا۔ مقتول کا گناہ فقط اتنا تھا کہ وہ غیر ملکی فوڈ چین میں ملازم تھا…… اور ملازمت وہ بندہ کرتا ہے، جو مجبور ہوتا ہے۔ ہر مزدور مجبور ہوتاہے۔ اگر مقتول مجبور نہ ہوتا، تو وہ موجودہ حالات میں کسی غیر ملکی فوڈ چین میں مزدوری کیوں کرتا؟
مجھے یہ بھی یقین ہے کہ باقی پاکستانیوں کی طرح وہ بھی اہلِ غزہ کے دکھ درد میں شریک ہوتا۔ ممکن ہے کہ وہ بھی اسرائیل کو ایک ناجائز اور ظالم ریاست مانتا۔ اَب جب وہ اس دنیا میں نہیں رہا، تو ہم پوچھ نہیں سکتے، مگر ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ روزِ محشر کا واقع ہونا یقینی ہے…… تو اُمید ہے کہ روزِ محشر وہ اپنے قاتلوں سے پوچھے گا کہ میرا گناہ کیا تھا؟ مجھے بائیکاٹ سے انکار ہے اور نہ غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ ہم دردی سے بے زاری ہی ہے…… لیکن آسان سوال یہ ہے کہ غزہ کی حمایت میں اپنے ہم وطنوں کو مارنا اور زخمی کرنا کہاں کی عقل مندی ہے؟
یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ احتجاج کے نام پر عوامی راستوں کی طویل بندش اور سرکاری ونجی املاک کو نقصان پہنچانے سے اہلِ غزہ کے مصائب میں کتنی کمی آسکتی ہے؟
برعکس اس کے فریقِ دوم کا جائزہ لیتے ہیں، جس کی اکثریت قوم پرستوں، مذہب بے زاروں اور کچھ پڑھے لکھے ہوؤں پر مشتمل ہے۔
مذکورہ فریق کا ماننا ہے کہ غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے، اُس کی پوری ذمے داری فلسطینی مزاحمتی تحریک (حماس) پر عائد ہے۔ کیوں کہ حماس ہی نے گذشتہ سال اکتوبر میں ایک اسرائیلی پارٹی پر حملہ کیا تھا۔ ان میں سے کچھ کو مارا تھا اور کچھ کو یرغمال بنایا تھا۔ بہ ظاہر اُس حملے نے اسرائیل کو حالیہ بدترین انسانیت سوز مظالم کے لیے بہانہ مہیا کیا تھا۔
سو فریقِ دوم (سیکولر اور لبرل) کا خیال ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا اور اہلِ غزہ بھی باقی فلسطینیوں کی طرح طفیلی زندگی گزارنے پر راضی ہوتے، تو اسرائیل یہ سب کچھ نہ کرتا۔
حقیقت لیکن یہ ہے کہ اس موقف میں بھی جھول ہے۔ کیوں کہ اسرائیل جس کا وجود خود بھی متنازع ہے، نے غزہ سے ہٹ کر بھی باقی فلسطینیوں کی زندگی کو جہنم بنایا ہواہے۔ 20 سال سے زیادہ عرصہ گزرا، جب اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ ایسے میں جب عالمی قوانین اور باقی ماندہ دنیا کی ترجیحات بدل گئیں اور اہلِ غزہ کو محسوس ہوا کہ روز روز مرنے سے بہتر ہے کہ کیوں نہ ایک روز جم کے لڑیں، اور دشمن کو بھی نقصان پہنچائیں۔
اس موقف کو یک سر مسترد کرنا بھی زیادتی ہی ہے۔ کیوں کہ گرمی کی تپش وہاں زیادہ محسوس کی جاتی ہے، جہاں آگ جل رہی ہوتی ہے۔
ذاتی طور پر احقر سمجھتا ہے کہ جذبات سے اگر اہلِ غزہ کے مصائب کم نہیں ہوسکتے، تو ان کی مزاحمت کو رد کرنے سے اسرائیل کے مظالم قابلِ قبول بھی نہیں مانے جاسکتے۔ لہٰذا اس معاملے کو لے کر اپنے ملک میں ایک طلاطم بپا کرنا بالکل مناسب نہیں۔ ہماری پوری ہم دردی اہلِ غزہ کے ساتھ ہے۔ اسرائیلی مظالم کو یک سر مسترد کرنا، ان سے نفرت کرنا، ان سے بے زاری ہر انسانیت پسند شخص پر لازم ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے