(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
تین برائیاں کرۂ ارض پر انسانی تاریخ میں بہت پرانی ہیں۔ یہ برائیاں جسم فروشی، بھیک مانگنا اور کرپشن ہیں۔ یہ وہاں پروان چڑھتی ہیں جہاں غربت ہو، ذات پات، مسلک اور جہالت کی بنیاد پر امتیاز ہو۔ بہت سے مصلحین نے ان برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے اور چند ہی کامیاب ہوئے ہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خلفائے راشدینؓ۔ ان سے پہلے اور بعد میں کوئی اس حوالے سے کسی کامیابی کا دعوا نہیں کرسکتا۔
1917ء میں جرگہ کے اجتماعی تدبر کے نتیجے میں میاں گل عبدالودود کی سربراہی میں ’’یوسف زئی ریاستِ سوات‘‘ کے قیام سے قبل یہ تمام برائیاں سواتی معاشرے میں موجود تھیں۔ طاقت ور خانوں نے داشتائیں رکھی تھیں۔ ان داشتاؤں کو ’’انڈیوالہ‘‘ کہتے تھے۔ اس کے علاوہ، وہ اپنے ’’ڈلہ‘‘ (پارٹی/ حلیف) کو ترجیح دیتے ، جو کہ اقربا پروری ہی کی ایک قسم تھی۔
ریاست کے قیام کے بعد، تقریباً تمام خوش حال طبقات محسوس کر رہے تھے کہ نئے تناظر میں کامیابی کی کلید تعلیم ہی ہے۔ اسی بنا پر انھوں نے اپنے بیٹوں کو قریبی قصبے تھانہ بھیجا، جہاں 1901ء میں ایک ہائی سکول قائم کیا گیا۔ لہٰذا، خانوں اور سیدوں، خاص طور پر والی صاحب کے ماموؤں نے اپنے بچوں کو جدید تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہیں بھیجا۔ نتیجہ واضح تھا، لامحالہ ریاستِ سوات کے نئے انتظامی یونٹس (تحصیلوں) کی قیادت انھیں تھانہ سکول سے فارغ تعلیم یافتہ افراد کو ملی۔ زیادہ تر تحصیل دار بڑے زمین دار یا سید گھرانوں میں سے تھے، سوائے چند کے۔ کچھ نقادوں نے اس بات کو بہت اُچھالا اور اسے اپنی تحاریر و تقاریر میں اقربا پروری کہا…… لیکن انھوں نے متوسط یا غریب طبقے میں تعلیم کی کمی کو یک سر نظر انداز کیا۔
بعد میں، بل کہ بہت بعد میں، جب سوات کے تمام طبقات کے لیے مفت تعلیم کی سہولت فراہم کی گئی، تو عام طبقے کے لوگ بھی ریاستی انتظامیہ میں ممتاز ہوگئے۔
ریاستی فورس کے تقریباً 10 ہزار افراد نچلے طبقات سے تعلق رکھتے تھے، سپاہی سے لے کر صوبے دار تک۔ بہت کم تعداد اس سے اوپر اعلا رینک تک پہنچی۔ والی صاحب بہ ذاتِ خود تمام انتظامی برائیوں سے پاک تھے۔ وہ شاید واحد شخص تھے، جو اس اصول کی نفی کر رہے تھے کہ ’’طاقت بدعنوان کر دیتا ہے اور مطلق اختیار بالکل بدعنوان بنا دیتا ہے۔‘‘
والی صاحب کے پاس اپنے لوگوں، ان کے وسائل اور سرحدوں میں رہنے والے لوگوں پر مکمل اختیار تھا۔ روسی سرکاری خبر رساں ایجنسی "TASS” کے مطابق، وہ بیسویں صدی کے سب سے طاقت ور شخص تھے…… لیکن وہ بدعنوان نہیں تھے۔ یہاں تک کہ ان کے سخت ناقدین بھی اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتے، لیکن کچھ عناصر (کالی بھیڑیں) تھیں، جنھوں نے اس کے برعکس فلاحی ریاست کے بارے میں کچھ ناپسندیدہ اشارے دیے۔
مَیں نے خود دیکھا ہے کہ اگر کسی بدعنوانی کے معاملے کو حکم ران کے نوٹس میں لایا جاتا، تو وہ کبھی بدعنوانی پر سمجھوتا نہیں کرتے تھے۔ مَیں، اپنے افسر کے توسط سے، ان کے نوٹس میں دو معاملات لایا، اور جب مَیں نے ان کے سامنے گواہی دی، تو انھوں نے ذمے دار اہل کار کے خلاف سخت کارروائی کی، انھیں ملازمت سے ہٹا دیا، جیل بھیج دیا اور ان کو ما بعد ملازمت کے فوائد سے محروم کر دیا۔ لیکن، جیسا کہ والی صاحب نے فیڈرک بارتھ کے ساتھ انٹرویو کے دوران میں کہا، بدعنوانی کی لعنت آخری دو یا تین سالوں میں زیادہ نظر آنے لگی تھی۔
لیکن یہ صرف ان کے دور تک محدود نہیں تھا۔ سب سے موثر ثبوت وزیر برادران ہیں، جو ایک معمولی حیثیت سے ابھرے تھے، اور جب ان کی جَلاوطنی کا وقت آیا، تو پوری ریاست میں کوئی بھی جائیداد کے لحاظ سے ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ مگر بعد میں ان کی غیر منقولہ جائیداد بادشاہ صاحب نے ریاست کے حق میں ضبط کرلی۔
نوٹ:۔ انڈیوال (مذکر) اور انڈیوالہ (مونث) پشتو میں یوں تو ساتھی کو کہتے ہیں، مگر سوات کے ’’پختو کے دور‘‘ میں انڈیوالہ در اصل داشتہ ہوتی تھی، جسے اکثر زبردستی گھر میں ڈالا جاتا تھا۔ اگر خان بوڑھا ہو، تو داشتائیں اِدھر اُدھر منہ مارتی تھیں۔ ایسے میں اگر خان کو پتا لگتا، تو بے چاریوں کی کی موت یقینی ہوتی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک خان نے اپنی داشتہ کو زندہ گاڑ لیا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
