سیدو ہسپتال کی ابتر صورتِ حال اور سنہرا ماضی

Blogger Fazal Raziq Shahaab

سیدو ٹیچنگ ہسپتال کی صفائی کے بارے میں ’’سوات نامہ‘‘ (فیس بُک صفحہ) کی ایک پوسٹ پڑھی، بہت افسوس ہوا۔ مَیں صرف ایک بار اس دیو ہیکل عمارت میں گیا تھا کسی کی عیادت کے لیے…… مگر لفٹ کی مسلسل مصروف رہنے کی وجہ سے لابی میں بیٹھ گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ لوگ صفائی کا بالکل خیال نہیں کرتے۔ جگہ جگہ نسوار تھوکتے رہتے ہیں۔ جہاں جی چاہا دسترخوان بچھا کر کھانا شروع کرتے ہیں۔ آرایشی گملوں کو تھوک دان کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں آپ نجی ہسپتال دیکھیں۔ صفائی کرنے والا سٹاف ہمہ وقت مصروف نظر آتا ہے۔ اِدھر آپ گزرے اور پیچھے سے وائپر پونچھا لگانے والا آیا اور جگہ صاف کی۔ اس وجہ سے فرش ہر وقت چمکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ہاں، وہاں ریسٹ رومز کی حالت اتنی اچھی نہیں۔ کسی بھی نجی ہسپتال میں آپ کو ٹوائلٹ پیپر نہیں ملے گا۔ یہ انتظام ہم نے شفا انٹرنیشنل ہسپتال میں دیکھا۔میگنم سائز کے رول کے رول پڑے ہیں۔ جتنا جی چاہے استعمال کرو۔
مجھے پھر ہرپھر کر ماضی میں جانا پڑتا ہے۔ ہمارے بچپن میں سیدو شریف میں صرف دو ہسپتال تھے: سیدو ہسپتال اور سنٹرل ہسپتال۔
سنٹرل ہسپتال کے انچارج ڈاکٹر غلام محمد کی سخت گیری اور کنٹرول کا ہر کوئی معترف تھا اور ان سے مرعوب بھی۔ عملہ ہر وقت الرٹ رہتا کہ کہیں گندگی کا شائبہ تک دکھائی نہ دے۔ صبح دفتر میں بیٹھنے سے پہلے وہ تمام وارڈ اور اُو ٹی کا معائنہ کرتے۔ عملہ سفید اوورآل پہنے اپنے اپنے وارڈ اور آپریشن تھیٹر کے برآمدے میں مودب ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا۔ ڈاکٹر کیپٹن غلام محمد راونڈ شروع کرتے۔ عملے کے سلام کا سر ہلا کر جواب دیتے، مگر نظریں آن کی فرش پر مرکوز ہوتیں۔ چھوٹا سا دھبا نظر آتا اور اُن کا پارہ چڑھ جاتا۔
یہی حالت سیدو ہسپتال کی بھی تھی۔ یہاں مجھے ایک بات یاد آگئی۔ میرے والد کسی عارضے کی وجہ سے میل وارڈ میں داخل تھے۔ وارڈ کے برآمدے میں لکڑی کے خوب صورت بنچ پڑے تھے، جس پر مریض کے تیماردار بیٹھتے تھے۔ ہمارا گھر افسر آباد میں تھا، جو ہسپتال سے دو تین منٹ کے فاصلے پر تھا۔ مَیں بابا کے لیے المونیم کے چائے جوش میں چائے لایا تھا، تو بابا نے کہا کہ وارڈ کے نزدیک باورچی خانے جاکر اسے گرم کر آؤ۔ مَیں وہاں گیا، تو باورچی خانے میں کام کرنے والی ماسیوں میں سے ایک نے آگے بڑھ کر چائے جوش لیا اور انگاروں پر رکھ دیا۔ اُس باورچی خانے میں تمام داخل مریضوں کے لیے کھانا پکتا تھا۔ یہ ماسیاں بھی افسر آباد کے آس پاس رہتی تھیں اور ہم کو جانتی تھیں۔ ماسی نے چائے گرم کرکے پیندے کے نیچے اپنا پلو پھیر کر راکھ صاف کیا اور مجھے دستہ پکڑا دیا۔ جب مَیں وارڈ پہنچا، تو اُس وقت ڈاکٹر نجیب راؤنڈ پر آگئے۔ مَیں نے چائے دانی لکڑی کے بنچ پر رکھ دی، تو اس پر لگی تھوڑی سے راکھ بنچ پر رہ گئی۔ وارڈ اردلی آکر اسی جگہ آگیا اور کہا یہ راکھ کس نے گرا ئی ہے؟ وہ بار بار یہی الفاظ دہراتا رہا کہ ڈاکٹر صاحب آگئے۔ پہلے میری طرف دیکھا، پھر وارڈ والے کی طرف دیکھا، جس کو سب بہشتی ماما کہتے تھے اور ایک آنکھ سے اندھے تھے۔ نجیب صاحب نے اُسے کہا: ’’تم کیوں بچے کو ڈرا رہے ہو، اسے صاف کیوں نہیں کرتے……؟‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے