بلاگ میں شال تصویر اُس تقریب کی ہے، جو 24 دسمبر 1965ء کو پشاور یونیورسٹی کے کانووکیشن ہال میں اس مقصد کے لیے منعقد کی گئی تھی کہ والئی سوات کو اُن کی تعلیمی خدمات اور انسانی فلاح و بہبود کے لیے مختلف اقدامات کے اعتراف میں ’’ڈاکٹر آف لاز‘‘ (Doctor of Laws) کی اعزازی ڈگری دی جائے۔
تقریب میں پڑھی گئی ’’سائٹیشن‘‘ (Citation) میں کہا گیا:
’’میجر جنرل جہانزیب، ہلالِ پاکستان، ہلالِ قائد اعظم، سی آئی ای، اسلامیہ کالجیٹ سکول اور اسلامیہ کالج پشاور کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ اُنھوں نے آہنی دورِ حکم رانی میں ریاست کے عوام کو تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنے میں نمایاں کارکردگی دکھائی ہے۔ تعلیم اور عام بشری بھلائی کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے پشاور یونیورسٹی سنڈیکیٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ میجر جنرل میاں گل جہانزیب کو ڈاکٹر آف لاز کی اعزازی ڈگری دی جائے، جس کا وہ صحیح معنوں میں حق دار ہے۔‘‘
اسی تقریب کے دوران میں والی صاحب نے پورے سینٹ ہال کا سرسری جائزہ لیا تھا۔
لگتا ہے اُسی دن سے اُن کے ذہن نے آنے والے تعلیمی منصوبوں کا ایک خاکہ تیار کیا تھا، جس کی انتہائی منزل سوات یونیورسٹی کا قیام تھی۔
اس منصوبے کا آغاز اُنھوں نے پہلے مرحلے کے طور پر ڈگر (بونیر) اور مٹہ (برسوات) میں انٹر میڈیٹ کالجز کے تعمیر سے کیا۔ دونوں منصوبوں کا آغاز کالج کی مین بلڈنگ، پروفیسرز کے لیے 10 اے کلاس بنگلوں اور 120 طلبہ کے لیے ہاسٹل کے علاوہ ایک ایک ٹیوب ویل مع واٹر سپلائی اور سٹوریج ٹینک سے کیا۔
ڈگر کالج کے لیے اتنی وسیع و عریض زمین حاصل کی گئی کہ جس میں اب ہر قسم کی توسیع وترقی کی گنجایش ہے۔
ساتھ ہی اپنے منصوبے کی ایک اور اہم عمارت یعنی کانووکیشن اور دیگر تقریبات کے لیے مجوزہ ہال کا منصوبہ تیار کروایا۔ اس مقصد کے لیے ریاست کے محکمۂ تعمیراتِ عامہ کے سربراہ جناب محمد کریم صاحب کو پشاور بجھوایا اور وہاں متعلقہ حکام سے یونیورسٹی کانووکیشن ہال کے مکمل بلیو پرنٹس حاصل کیے۔ والئی سوات کی ہدایت کے مطابق اس کا تخمینہ تیار کیا گیا۔ نقشے میں نمایان ترمیم یہ کی گئی کہ ایک طرف بنے ہوئے اونچے ٹاؤر کو حذف کر دیا گیا۔
والئی سوات نے محکمے کی طرف سے تیار کیے گئے تخمینے کے مطابق اس ہال کی تعمیر کا ٹھیکا مینگورہ کے امان اللہ خان کو بلا مقابلہ تفویض کر دیا اور اُنھوں نے درحقیقت اسے کاروباری انداز کی بہ جائے جذباتی لگن اور تن دہی سے تکمیل تک پہنچا دیا۔ اس کے تمام جزیات، سیٹنگ ارینجمنٹ، سٹیج اور گیلری مکمل طور پر پشاور یونیورسٹی کے ہال کے عین مطابق ہے، ماسوائے اُس اونچے ٹاؤر کے، جسے ہذف کیا گیا۔
وقت نے مہلت نہ دی، ورنہ سوات یونیورسٹی آج سے 50،55 سال پہلے بنی ہوتی۔
یہ ہال (ودودیہ ہال، 1968ء) ریاستی دور کی عظمت کا یادگار ہے، جسے یوسف زئ ریاستِ سوات کے معمار میاں گل عبدالودود کے نام سے موسوم کیا گیا، جنھوں نے اپنے عہد میں اس خطے کا پہلا ’’اینگلو ورنیکولر سکول‘‘ بنوا کر سوات کے شان دار تعلیمی سفر کا آغاز کیا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
