ادغام ریاست سوات اور مضحکہ خیز دعوے

Blogger Fazal Raziq Shahaab

جب کبھی اور جس بھی فورم پر ریاست سوات کے ضم ہونے کے حوالے سے بحث چھڑتی ہے، تو فرضی قیاسات، متبادل اقدامات اور ادغام کو روکنے کے بارے میں اوٹ پٹانگ قسم کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ بعض تبصرے تو اخلاق سے گرے ہوے ہوتے ہیں،مگر زیادہ تر منفی اور مثبت جذبات کے اظہار پر مبنی ہوتے ہیں۔
میری رائے میں تو سب سے مستند والئی سوات کے اس بارے میں پروفیسر فریڈرک بارتھ کو دیے گئے ریکارڈشدہ انٹرویوز ہیں، جو اُن کی کتاب ’’دی لاسٹ والی آف سوات‘‘ میں آپ پڑھ سکتے ہیں۔
اس ادغام کے پس منظر میں بہت سے اوامر کا دخل دکھائی دیتا ہے۔ مَیں اپنی سمجھ کے مطابق کچھ عرض داشت قارئین کے لیے پیش کرتا ہوں۔ یہ کوئی آخری اور حتمی بیانیہ نہیں۔ صرف حالات کے تناظر میں ایک تجزیہ ہے، جو ناقص بھی ہوسکتا ہے۔
میرے خیال میں مختلف عناصر، واقعات اوربدلتے ہوئے رجحانات نے اپنے اپنے "Effectiveness” کے بل پر انضمام کے لیے راہ ہم وار کی۔ اس مرحلے کی ابتدا اُس "Supplementary Instrument of Accession of 1954” سے ہوتی ہے، جو ایک ہفتے کے طویل مذاکرات کے بعد والئی سوات اور حکومت پاکستان کے نمایندوں کے دست خطوں سے نافذالعمل قرار پایا۔ مذکورہ مذاکرات کالام میں منعقد کیے گئے تھے، جہاں پر یہ لوگ خیموں میں قیام پذیر تھے۔ اُس وقت کالام تک صرف گھوڑوں کے ذریعے سفر ممکن تھا۔ مذکورہ گفت و شنید کے بارے میں تفصیل والی سوات کی زبانی ’’دی لاسٹ والی آف سوات‘‘ میں شامل ہے، جو ’’ناورویجین یونیورسٹی پریس، اوسلو، ناروے‘‘ نے شائع کیا ہے۔
مذکورہ دستاویز کی رو سے والی سوات کے بعض اختیارات ظاہری طور پر ایک سٹیٹ کونسل کو منتقل کیے گئے، جس کے صدر والئی سوات تھے۔ کچھ ممبر عوام کی رائے دہی کے ذریعے منتخب ہوتے تھے، کچھ نام زد ممبر اور کچھ ریاستی عمال بہ لحاظ عہدہ ہوتے تھے…… مگر یہ والئی سوات کی شخصیت کا کمال تھا کہ انھوں نے کمال دوراندیشی، تحمل اور متانت سے 15 سال تک ریاست کے اُمور صرف قومی مفاد میں چلائے۔ ترقی کی رفتار میں کمی آنے دی، نہ ممبرانِ کونسل کو مایوس کیا اور نہ اپنی پوزیشن پر ’’کمپرومائز‘‘ ہی کیا۔
مجھے اس وقت مرحوم شہزادہ عدنان اورنگ زیب باچا کی ایک بات بار بار یاد آرہی ہے، جو اُنھوں نے اپنی شہادت سے دو روز قبل 28 مئی کو میرے ساتھ پہلی اور آخری ملاقات میں فرمائی تھی۔یہ ملاقات اُن کی خواہش پر میرے گاؤں ابوہا میں ہوئی تھی، جو تقریباً 3 گھنٹے جا ری رہی تھی۔ عدنان باچا کے بہ قول: ’’والی صاحب تو 1954ء سے 1958ء تک ریاست کے Informal Ruler تھے۔‘‘
مَیں نے اُن سے اس کی وضاحت اس لیے نہیں مانگی کہ مجھے نہ صرف ذاتی طور پر مذکورہ مدت کے بعد ریاست کی برق رفتار ترقی کا مشاہدہ نصیب ہوا، بل کہ1961ء سے جولائی 1969ء تک مَیں اس کا ایک حصہ رہا ہوں۔ وہ 8 سال میرا ایک ان تھک محنت کا، مسلسل حرکت کا اور کسی مقصد کی تکمیل پر دلی اطمینان کا دور تھا۔
ریاست کے آخری دو سال میں کچھ بے چینی کے، کچھ "Disgruntled” عناصر کی سرگرمیوں کے آثار محسوس ہونے لگے، جس کی سرپرستی کچھ اثر و رسوخ رکھنے والے حلقے کر رہے تھے۔ مجھے یاد ہے ہمارے ایک کولیگ دفتر میں پیپلز پارٹی کی رکنیت فارم لوگوں سے دست خط کروا رہے تھے، جو ایک واضح تبدیلی تھی کہ اس طرح کھلے بندوں ریاست کے قوانین کی خلاف ورزی کی جائے۔
کچھ "Subversive Activity” بھی ہوئی تھیں، جو قابلِ ذکر نقصان نہ کرسکیں، البتہ وہ عناصر اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں کام یاب ضرور ہوئیں، اور اچانک غیر متوقع طور پر صدر ایوب کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ بھٹو کھل کر اُن کی مخالفت میں سرگرم ہوئے۔ سابق صدر کبھی کبھی آرام اور سکون کے چند لمحے سوات کی پُرسکون وادی میں گزارنے کے لیے آتے، جو مخالقین برداشت کرنے کو تیار نہیں تھے۔ پاکستانی پریس میں بھی کچھ حلقوں کی جانب سے ایک بھر پور اور موثر مہم چلائی گئی۔ پھر "Top Brass” میں کچھ عناصر کی ذاتی مخاصمت کو حالات و واقعات پر اثر انداز ہونے کا موقع ملا، تو بس……قصہ ہی ختم!
بعض کمنٹس جو وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا پر لوگوں نے دیے ہیں۔ اُن میں سب سے مضحکہ خیز یہ ہے کہ ’’ریاست کو بر طانیہ سے الحاق کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔‘‘
اول تو برطانیہ اس قسم کے الحاق کا بین الاقوامی قانون کے مطابق مجاز نہیں تھا کہ یہ پیش کش قبول کرتا، بل کہ اُلٹا یہ عمل پاکستان کے ساتھ ریاستِ سوات کے کیے گئے معاہدوں کی سنگین خلاف ورزی کا ارتکاب سمجھا جاتا، جو بغاوت کے زمرے میں آتا۔
ایک اور بات، ریاستِ سوات 14 اگست 1947ء تک برطانوی ہند کا حصہ تھا، جو اندرونی طور پر خود مختار تھا۔ 14 اگست 1947ء کے بعد وہ خود بہ خود پاکستان کا حصہ بن گیا اور اب وہ اُن معاہدوں کا پابند تھا، جو "Instrument of Accession 1947” اور "Supplimentry Instrument of Accession 1954” میں مذکور ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے