سیاست کے نرالے رنگ

Blogger Fazal Raziq Shahaab

پاکستان کے معرضِ وجود میں آئے 78 سال ہونے والے ہیں، لیکن یہاں کسی مہذب جمہوری ملک کی طرح سنجیدہ سیاسی جماعتیں تشکیل نہ پا سکیں۔ مسلم لیگ جو خود کو پاکستان بنانے والی جماعت سمجھتی ہے، وہ کئی ٹکڑے میں بٹ کر کم زور ہوتی گئی، بل کہ عام تصور تو ابتدا ہی سے یہی تھا کہ یہ پاکستان کی بورژوا طبقے کا سیاسی کلب ہے۔
علاقائی پارٹیاں نسلی بنیاد پر سیاست کرتی رہیں، اس لیے قومی سطح پر کوئی رول ادا کرنے سے قاصر رہیں۔پارٹیوں کی کثیر تعداد بھی قومی سطح کی سیاست کو فروغ دینے میں ناکام رہیں۔
دوسری خامی جو پاکستانی سیاست کا طرۂ امتیاز ہے کہ جب کوئی پارٹی عوامی سطح پر مقبول ہوگئی، تو ان کے کارکن اور راہ نماؤں کے لہجے بگڑ گئے۔ وہ بازاری زبان میں تقریریں کرکے لوگوں کے جذبات بھڑکاتے ہیں، مگر عملی طور پر ملک کو کچھ فائدہ نہیں دے سکے۔
دو پارٹیوں کو عوامی سطح پر زبردست پذیرائی ملی، مگر اُن کے لیڈر اس مقبولیت کو ملکی مسائل حل کرنے کی بہ جائے اپنا بت تراشنے میں لگے رہے۔ ورکرز تو جذباتی ہوتے ہیں، وہ اپنے ہی بنائے گئے بتوں کی اندھی عقیدت اور محبت میں گرفتار ہوکر اخلاق کی دھجیاں اُڑانے اور ایک دوسرے کو بدنام کرنے میں لگ گئے۔
مذکورہ پارٹیاں ’’پیپلز پارٹی‘‘ اور ’’تحریک انصاف‘‘ ہیں۔
پیپلز پارٹی کو تو زرداری اینڈ کمپنی نے اس حالت تک پہنچایا، مگر اس کا زوال کی طرف سفر بہت پہلے سے شروع ہوچکا تھا۔ برسبیلِ تذکرہ مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے، جب نصراللہ خٹک وزیرِ اعلا تھے، تو اُن کے ایک دورے میں میری ڈیوٹی لگی تھی۔ ایک گاؤں میں جلسے کے دوران میں ایک ورکر نے اُٹھ کر تقریر شروع کی کہ ’’خٹک صاحب! آپ لوگوں نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ آپ ہم غریبوں کو خوانین سے نجات دلائیں گے، مگر ہماری عورتیں اب بھی خوانین کے گھروں میں برتن مانجھ کر مزدوری کرتی ہیں!‘‘
خٹک صاحب نے جواباً جو گوہر افشانی کی وہ ناقابلِ تحریر ہے۔ مختصر یہ کہ خوانین کی خوب ’’عزت افزائی‘‘ فرمائی۔
بدقسمتی سے جو پارٹی جتنی مقبول ہوتی جاتی ہے، اُس کے ’’فالوورز‘‘ کی زبان بگڑ جاتی ہے۔ اب تو اخلاق و تہذیب کے سارے حدود پامال کیے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر فحش نگاری کا وہ شاہ کار پھیلادیا جاتا ہے کہ انسانیت کی روح تک بلبلا اُٹھتی ہے۔ معمر خواتین تک کو بھی معاف نہیں کیا جاتا۔ آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا جو غلط اور گم راہ کن استعمال پاکستانی سیاست میں ہورہا ہے۔ کسی دوسرے ملک میں اُس کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت میں بھی وہ گند نہیں ملتا جو ہمارے ہاں پھیلایا جاچکا ہے۔ قومی سلامتی کو داو پر لگا کر غلط اطلاعات ’’ریلز‘‘ (Reels) کی صورت میں اور کرائے کے زر خرید غلام صحافیوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو گم راہ کرنے کی غرض سے پھیلائی جاتی ہیں۔ اس کی مدد سے لوگوں کو تشدد پر اُکسایا جاتا ہے۔
علاقائی صورت حال کا تقاضا ہے کہ حساس معاملات کو کم سے کم موضوع بنایا جائے۔ مَیں جانتا ہوں کہ یہ میرا منصب نہیں کہ سیاست پر آپ کی سمع خراشی کروں، مگر فروعی صورتِ حال کو دیکھ اتنا ضرور عرض کروں گا کہ ہمیں قومی یک جہتی کی شدید ضرورت ہے۔ ہمیں مفاہمت کی فضا قائم کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ ہی اس گھمبیر صورتِ حال سے نکلنے کا واحد راستہ ہے۔ ضد اور اپنی انا کی تسکین کے لیے اور مواقع آئیں گے۔ یہ حساب کتاب پھر بھی ہوسکتا ہے۔
کسی کو یہ تحریر بری لگے، تو ’’اگنور‘‘ کرکے آگے بڑھیں۔خوش رہیں!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے