پشتون قوم کی تاریخ جرات، غیرت اور وفاداری سے بھرپور ہے۔ صدیوں سے یہ قوم پہاڑوں، میدانوں، قبیلوں اور روایتوں میں زندہ رہی ہے…… مگر انھی روایتوں میں ایک تلخ اور سنگین مسئلہ بھی چھپا ہوا ہے، جو وقتاً فوقتاً سر اُٹھاتا رہتا ہے؛ کہیں وراثت کے تنازع کی شکل میں، کہیں زمین کی ملکیت کے جھگڑے کی شکل میں، تو کہیں پانی کی تقسیم پر خون خرابہ برپا ہونے کی شکل میں۔ ایسے جھگڑے جن میں بھائی بھائی، باپ بیٹے اور باقی رشتے بھی نظر انداز کرکے ایک دوسرے کو مار ڈالتے ہیں اور بہنوں کو ان کے جائز وراثتی حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
حال ہی میں عید کے دنوں میں بھی ایسا واقعہ پیش آیا جب دو معزز خاندانوں کے درمیان زمین کے تنازع پر لڑائی ہوئی، جس میں دونوں طرف سے دو نوجوانوں سمیت چار افراد مارے گئے اور کئی زخمی ہوئے۔ زخمیوں میں سے ایک نوجوان کے والد بھی بعد میں ہسپتال میں اپنی جان گنوا بیٹھے۔ ذرا سوچیں کہ اُس عورت پر کیا گزری ہوگی جس کا جوان بیٹا اور شوہر ایک ساتھ مارے گئے ہوں، وہ بھی ایک ایسی چیز پر جو ہمیشہ کے لیے نہیں رہتی۔ یہ واقعات کسی ایک جگہ یا وقت تک محدود نہیں، بل کہ پورے خطے میں وقت کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں اور ہر بار یہ خون خرابہ خاندان کے رشتوں کو جڑ سے اُکھاڑ دیتا ہے۔
دینی تعلیمات ہمیں ایسی لڑائیوں سے سختی سے روکتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب دو مسلمان تلوار لے کر ایک دوسرے سے لڑیں، تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔‘‘ (صحیح بخاری: 31، صحیح مسلم: 2888)
جب صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ مقتول کیوں؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’اس لیے کہ وہ بھی اپنے بھائی کو قتل کرنا چاہتا تھا۔‘‘
اس سے واضح ہوتا ہے کہ دشمنی اور لڑائی دونوں کے گناہ برابر ہیں، اور کوئی بھی فریق اس سے بری نہیں، جب کہ لوگ اپنے اپنے مارے گئے شخص کو شہید اور حق پر سمجھتے ہیں۔
مزید برآں، زمین اور وراثت کو ناحق ہتھیانے کے بارے میں بھی سخت وعید ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے ناحق کسی کی ایک بالشت زمین بھی لے لی، قیامت کے دن سات زمینوں تک اسے اس کے گلے میں طوق بنا دیا جائے گا۔‘‘ (صحیح بخاری: 2452، صحیح مسلم: 1610)
اس حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ زمین کے تنازع میں ناحق قبضہ کتنا سنگین جرم ہے ۔
قرآنِ مجید بھی زمین میں فساد پھیلانے والوں کو شدید تنبیہ دیتا ہے: ’’اور زمین میں اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ۔‘‘ (سورۃ الاعراف: 56)
اور ’’جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کی سزا قتل ہے۔‘‘ (سورۃ المائدہ: 33)
ان تعلیمات کے باوجود ہماری قوم کے بعض حصے اس ظلم و فساد میں گرفتار ہیں۔ عدالتیں سست اور ناانصاف ہوتی ہیں اور جرگے بعض اوقات تعصب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً، انصاف نہ ملنے پر لوگ خود ہی اپنی جان و مال کا تحفظ بندوق اور تشدد سے کرتے ہیں۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اس تباہ کن روایات کو ختم کریں۔ خون کا سودا بند کریں اور اپنے دلوں میں بھائی چارے کا جذبہ پیدا کریں۔ زمین اور جائیداد کی خاطر دشمنی اور خون خرابہ ہمارے معاشرے کی ترقی اور خوش حالی کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ ہمیں چاہیے کہ معاف کرنے کی قوت پیدا کریں اور جرگوں، عدالتوں اور مذہبی راہ نماؤں کی مدد سے انصاف کو یقینی بنائیں۔ یہ یاد رکھنا ہوگا کہ زمین کے ٹکڑے اگر بعد میں بھی بانٹے جائیں، مگر ایک جان کا نقصان ہمیشہ کے لیے ہے۔ اگر ہم نے آج بھی اپنے رویے نہ بدلے، تو کل ہمیں اپنی نسلوں کے غم میں رونا پڑے گا۔ پشتون قوم کی عظمت اور شان اسی میں ہے کہ وہ اپنے رسم و رواج کو وقت کے تقاضوں کے مطابق بہتر بنائے اور امن و محبت کا درس دے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
