موجودہ اسرائیل اور ایران جنگ نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کی جغرافیائی و سیاسی صورتِ حال کو بدلنے کے درپے ہے، بل کہ اس کے اثرات عالمی سطح پر بھی گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ اس تنازع کے بطن میں کئی تہہ در تہہ عوامل کارفرما ہیں، جن میں عقیدہ، طاقت، مفادات اور جغرافیائی سیاست سب شامل ہیں۔ ان حالات میں پاکستان، جو ایک نظریاتی، جمہوری اور ایٹمی اسلامی ریاست ہے، اس بحران میں خود کو کسی واضح فوجی اتحاد یا محاذ آرائی سے دور رکھتے ہوئے سفارتی، انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر ایک حساس لیکن بامعنی کردار ادا کر رہا ہے۔
پاکستان کا کردار مختلف زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے ، جن میں اس کی خارجہ پالیسی، داخلی سیاسی و مذہبی صورتِ حال، عوامی جذبات، علاقائی و عالمی طاقتوں سے تعلقات اور معاشی مفادات شامل ہیں۔
پاکستان کی ریاستی پالیسی کی بنیاد ہمیشہ فلسطین کے مسئلے پر اصولی موقف پر رہی ہے۔ 1947ء سے لے کر آج تک پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور ہمیشہ فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کی ہے۔ اس تناظر میں اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے سفارتی یا تجارتی تعلقات قائم نہ کرنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مستقل جزو رہا ہے۔ ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی تاریخی، ثقافتی اور مذہبی بنیادوں پر استوار ہیں۔ اگرچہ بعض اوقات دونوں ممالک کے درمیان اختلافات اور غلط فہمیاں پیدا ہوتی رہی ہیں، خصوصاً سرحدی سیکورٹی کے معاملات پر، لیکن مجموعی طور پر دونوں ممالک نے ہمیشہ تعلقات کو بہتر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ موجودہ جنگ کے تناظر میں ایران کی اسرائیل مخالف پوزیشن، پاکستان کے عوامی جذبات سے مطابقت رکھتی ہے، لیکن پاکستانی ریاست اس مسئلے پر کسی عسکری یا جارحانہ موقف اختیار کرنے سے گریز کرتی ہے۔
پاکستان کا یہ محتاط رویہ محض خود کو جنگ سے دور رکھنے کی حکمتِ عملی نہیں، بل کہ ایک ذمے دار ریاست کے طور پر امن و استحکام کی خواہش کا مظہر بھی ہے۔ پاکستان یہ بات بہ خوبی جانتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کے بڑھنے سے نہ صرف خطے میں ایک وسیع جنگ چھڑنے کا خطرہ ہے، بل کہ عالمی سطح پر توانائی، تجارت اور سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم اور دوسرے بین الاقوامی فورمز پر امن و مذاکرات کی حمایت کرے اور فریقین کو تصادم کے بہ جائے سفارتی راہ اپنانے پر آمادہ کرے۔
داخلی سطح پر پاکستان کی مذہبی جماعتیں، تعلیمی ادارے، میڈیا اور عام شہری ایران و فلسطین سے یک جہتی کے مظاہروں میں پیش پیش ہیں۔ ملک بھر میں اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاجی مظاہرے، ریلیاں اور سیمینار منعقد کیے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر نوجوان نسل کی ایک بڑی تعداد اس مسئلے پر نہایت جذباتی انداز میں ردِعمل دے رہی ہے۔ یہ عوامی دباو حکومت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر اپنا موقف مضبوطی سے پیش کرے اور کم زور بیانیے سے اجتناب کرے۔
پاکستان کی اس وقت ایک بڑی ذمے داری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے فرقہ وارانہ ماحول کو اس بین الاقوامی جنگ سے متاثر نہ ہونے دے۔ چوں کہ ایران شیعہ مسلک کا مرکز ہے اور پاکستان میں مختلف فقہی مکاتب فکر کے ماننے والے بستے ہیں، اس لیے دشمن عناصر کی یہ کوشش ہوسکتی ہے کہ اس بین الاقوامی جنگ کو پاکستان کے اندرونی مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کریں۔ پاکستانی ریاست، علما اور سوسائٹی کو مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہوگا، تاکہ قومی اتحاد برقرار رکھا جاسکے۔
علاقائی لحاظ سے پاکستان کو اس مسئلے میں ایک اور پیچیدہ صورتِ حال کا سامنا ہے۔ چین، جو پاکستان کا قریبی اتحادی ہے، ایران کے ساتھ بھی اپنے اسٹریٹجک تعلقات رکھتا ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں امن کے لیے متعدد بار ثالثی کا کردار ادا کر چکا ہے۔ روس بھی ایران کا حامی ہے اور اسرائیل کے خلاف نرم رویہ رکھتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور یورپی یونین، اسرائیل کے دفاع میں کھڑے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ ایک نازک سفارتی توازن قائم رکھنے کا لمحہ ہے، جس میں اسے ایک طرف اپنے اُصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے دوسری طرف عالمی طاقتوں سے تعلقات بھی سنبھالنے ہیں، تاکہ کسی ممکنہ اقتصادی یا سفارتی تنہائی سے بچا جاسکے ۔
پاکستان کی معیشت، جو پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے، اس جنگ کے نتیجے میں مزید دباو میں آسکتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں موجود پاکستانی ورکرز کی حفاظت، تیل کی قیمتوں میں اضافہ، تجارت کی راہ میں رکاوٹیں اور ترسیلاتِ زر میں ممکنہ کمی وہ خطرات ہیں جن کا ادراک کرنا اور ان کے تدارک کے لیے پیشگی منصوبہ بندی کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔
اس ساری صورتِ حال میں پاکستان اگرچہ کوئی عسکری کردار ادا نہیں کر رہا، لیکن اس کا سفارتی، نظریاتی اور اخلاقی کردار بے حد اہم ہے۔ پاکستان ایک ایسی آواز بن کر اُبھر سکتا ہے جو امتِ مسلمہ کو باہمی اتحاد، مشترکہ لائحۂ عمل اور عالمی امن کے لیے متحرک کرے۔ اگر پاکستان سفارتی سطح پر فعال کردار ادا کرتا ہے، تو وہ نہ صرف مشرقِ وسطیٰ، بل کہ عالمی اسٹیج پر بھی اپنی اہمیت کو بڑھا سکتا ہے۔
یوں، موجودہ اسرائیل ایران جنگ میں پاکستان کا کردار خاموشی میں چھپی حکمت کا مظہر ہے۔ یہ کردار نہ صرف اس کی خارجہ پالیسی کی پختگی کو ظاہر کرتا ہے، بل کہ اس بات کا بھی غماز ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار عالمی ریاست کے طور پر اپنے نظریات، مفادات اور عوامی امنگوں کے درمیان توازن قائم رکھ سکتا ہے۔ مستقبل میں پاکستان کا یہی محتاط مگر اُصولی موقف اسے عالمی امن کے قیام میں ایک موثر ثالث اور امت مسلمہ کے ایک رہنما کے طور پر نمایاں کر سکتا ہے ۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
