تحریر و ترتیب: میثم عباس علیزئی
(’’فلسفہ کی تاریخ‘‘ دراصل ڈاکٹر کامریڈ تیمور رحمان کے مختلف لیکچروں کا ترجمہ ہے۔ یہ اس سلسلے کا اکیس واں لیکچر ہے، مدیر)
٭ سوفسطائی (Sophists):۔ پچھلے لیکچروں میں ہم نے ’’اتھینین جمہوریت‘‘ کے بارے میں پڑھ لیا ہے کہ ایتھنز کے اندر جو ’’ڈماس‘‘ (Demos) تھے، اور جو اشرافیہ طبقہ تھا، اُن کے درمیان ایک قسم کا سمجھوتا تھا کہ جس میں غلام اور عورتیں بالکل شامل نہیں تھیں۔ اُس سمجھوتے کی وجہ سے کچھ ایسے ادارے قائم ہوئے کہ جس میں ہر فرد اپنے نقطۂ نظر کو عوام کے سامنے پیش کرسکتا تھا…… یعنی کہ جو فرد اچھا مقرر ہوتا تھا، وہ اپنا نقطۂ نظر آگے پہنچا سکتا تھا۔ لوگوں کو متوجہ اور قائل کرسکتا تھا۔ اسمبلی کو متوجہ کرسکتا تھا۔ عدالتوں (Courts) کو قائل کرسکتا تھا کہ اُس کا نقطۂ نظر درست ہے۔ لہٰذا اشرافیہ طبقے کے اندر ایسے لوگوں کی زیادہ "Demand” تھی۔ ایتھنز میں بھی اور یونان کے اور مختلف شہروں میں بھی، تاکہ ان کو تقریر کرنا سکھا سکے، یا تاکہ ان کی تقریر کو پُراثر بناسکے۔ اس "Demand” کو پورا کرنے والے لوگ تھے، اُن کو ہم ’’سوفسطائی‘‘ یعنی "Sophists” کہتے ہیں۔
سوفسطائی بنیادی طور پر اساتذہ ہوا کرتے تھے۔ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے اور مختلف لوگوں کو پڑھاتے اور سیکھاتے چلے جاتے تھے۔ ظاہر ہے اُس زمانے میں باقاعدہ طور پر اسکول اور یونیورسٹیاں تو ہوتی نہیں تھیں، لہٰذا ایک قسم کی "Private Tuition” ہوا کرتی تھی کہ جو بھی ’’ایرسٹکوریٹ‘‘ (Aristocrat) ہے، وہ کسی اُستاد یا عقل مند انسان کو بلا لیتا تھا اور اُس سے کہتا تھا کہ مجھے سیکھنا ہے۔
چوں کہ سوفسطائی پورے یونان کے اندر اور یونان سے باہر جو یونانی کالونیاں تھیں، وہاں لوگوں کو پڑھاتے رہتے تھے۔ لہٰذا یہ (سوفسطائی) مختلف علاقوں کے مختلف قوانین، روایات اور رسومات سے واقف ہوگئے تھے، مگر اُنھوں نے اپنے درمیان ایک قسم کا "Ethos” بنالیا تھا۔ ان کی ایک قسم کی اپروچ تھی، وہ یہ کہ اُنھوں نے تمام مختلف نقطۂ نظر پڑھانے ہیں…… یعنی وہ کوئی سچائی کی تلاش میں نہیں تھے، بلکہ اُن کی کوشش یہ تھی کہ تمام جو مختلف نقطۂ نظر ہیں، اُن کو سمجھا جائے اور شاگردوں کو پڑھایا جائے۔
سوفسطائیوں کا دعوا یہ تھا کہ وہ کسی بھی کم زور پوزیشن اور کسی بھی کم زور نقطۂ نظر کو پُراثر اور طاقت ور بناسکتا ہے۔ ایک طرح سے آج کے دور کے وکیل کی طرح ہوتے تھے کہ جو کسی بھی نقطۂ نظر کو سچا ثابت کرتا ہو، خوب اُسی طرح ہم کَہ سکتے ہیں کہ سوفسطائی بھی اس زمانے کے وکلا کی طرح ہوتے تھے۔ لہٰذا سوفسطائی کسی بھی ایک نقطۂ نظر کے لوگ نہیں تھے۔ اُن کا مقصد یہی تھا کہ ہم تمام علوم سے واقف ہوں، اور اُن کو بہتر طریقے سے پیش بھی کرسکیں۔
ایک طرح سے دیکھا جائے، تو جدید زمانے کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ بھی یہی کام کرتے ہیں کہ اپنے شاگردوں کو کئی مختلف علوم اور نقطۂ نظر پڑھائیں اور سمجھائیں۔
٭ریلیٹوزم اور سبجیکٹوزم کے بانیان (Founders of Relativism and Subjectivism):۔ آج جدید زمانے میں سوفسطاؤں کو ہم ’’ریلیٹوزم‘‘ (Relativism) اور ’’سبجیکٹوزم‘‘ (Subjectivism) کے بانیان (Founders) سمجھتے ہیں۔ ریلیٹوزم اور سبجیکٹوزم کو اگر ہم مختصراً بیان کریں تو وہ یہ کہ "Man is the measure of all things.” (Protagoras) یعنی ’’تمام چیزوں کا معیار اور پیمانہ انسان خود ہے۔‘‘
یہ فیصلہ کرنا کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ…… اس کا فیصلہ انسان خود کرتا ہے، کوئی بھی مکمل اور معروضی سچ نہیں، اور نہ کوئی مکمل جھوٹ ہی ہے۔
"Man decides what is true and false. There is no absolute truth, there is no absolute reason.” (Protagoras)
سبجیکٹوزم کا مطلب یہی ہے کہ ہر چیز ہم اپنی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ ایک چیز جو آپ کی نقطۂ نظر سے سچ ہے، وہ شاید کسی اور کے نقطۂ نظر سے غلط ہو۔ کیوں کہ ایک چیز ایک کے نقطۂ نظر سے سچ ہے اور دوسرے کے نقطۂ نظر سے جھوٹ ہے، تو کوئی بھی ایسی چیز، حقیقت، کوئی اصول یا قدر نہیں، جو کہ مکمل اور ہر نقطۂ نظر سے سچ ہو اور یہی دراصل سبجیکٹوزم ہے ۔
"What is true for you is true for you and what is true for me is true for me.” (Protagoras) یعنی ’’جو آپ کے لیے سچ ہے، وہ آپ کے لیے سچ ہے…… اور جو میرے لیے سچ ہے، وہ میرے لیے سچ ہے۔‘‘
دوسرے الفاظ میں یہ کہ ہر مختلف جگہ و ثقافت کے مختلف اصول و اقدار ہوا کرتے ہیں، تو جب ایک شہر سے دوسرے شہر سوفسطائی جایا کرتے تھے، تو وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ مثلاً اُس شہر کی اقدار درست ہیں اور آپ کے غلط ہیں، بلکہ وہ کہتے تھے کہ فُلاں شہر کے یہ اُصول و قوانین اور اقدار ہیں…… اور فُلاں کے یہ۔ دونوں کو آپ دیکھ لیں، جو آپ کو بہتر لگتے ہیں اُن کو آپ اپنائیں۔
’’پروٹاگوراس‘‘ (Protagoras) کہا کرتا تھا:”It is equally possible to affirm or deny anything of anything.” یعنی ’’کسی بھی چیز کو سچا یا جھوٹا ثابت کیا جاسکتا ہے۔‘‘ مطلب کوئی مکمل سچ اور جھوٹ ہے ہی نہیں۔
’’پروٹاگوراس‘‘ سے جب کسی نے یہ پوچھا کہ یونانی دیوتاؤں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تو اس کا جواب تھا: "The question is complex and life is short.” یعنی ’’سوال بڑا گھمبیر ہے اور زندگی بہت چھوٹی ہے۔‘‘
اولین بیس لیکچر بالترتیب نیچے دیے گئے لنکس پر ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں:
1)  https://lafzuna.com/history/s-33204/
2)  https://lafzuna.com/history/s-33215/
3)  https://lafzuna.com/history/s-33231/
4)  https://lafzuna.com/history/s-33254/
5)  https://lafzuna.com/history/s-33273/
6)  https://lafzuna.com/history/s-33289/
7)  https://lafzuna.com/history/s-33302/
8)  https://lafzuna.com/history/s-33342/
9)  https://lafzuna.com/history/s-33356/
10) https://lafzuna.com/history/s-33370/
11) https://lafzuna.com/history/s-33390/
12) https://lafzuna.com/history/s-33423/
13) https://lafzuna.com/history/s-33460/
14) https://lafzuna.com/history/s-33497/
15) https://lafzuna.com/history/s-33524/
16) https://lafzuna.com/history/s-33549/
17) https://lafzuna.com/history/s-33591/
18) https://lafzuna.com/history/s-33611/
19) https://lafzuna.com/history/s-33656/
20) https://lafzuna.com/history/s-33705/
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔