تحریر و ترتیب: میثم عباس علیزئی
(’’فلسفہ کی تاریخ‘‘ دراصل ڈاکٹر کامریڈ تیمور رحمان کے مختلف لیکچروں کا ترجمہ ہے۔ یہ اس سلسلے کا چھٹا لیکچر ہے، مدیر)
٭ تھیلیس (Thales):۔ تھیلیس کی پیدایش تقریباً 624 قبلِ مسیح میں ہوتی ہے اور تقریباً 545 قبلِ مسیح میں انتقال ہوتا ہے۔ تاریخ میں شاید سب سے پہلے فلاسفر کا نام ’’تھیلیس‘‘ ہے۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ "Everything is full of life” یعنی ہر چیز میں زندگی پائی جاتی ہے۔ شائد یہ خیال اُسے اِس لیے آیا کہ جب اُس نے مٹی کو دیکھا، اُس میں سے اُسے نکلتے ہوئے پھول نظر آئے، درخت نظر آئے، گھاس نظر آئی، چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑے نظر آئے۔ اُس کا یہ تصور تھا کہ ہر چیز مٹی سے نکلتی ہے اور مٹی میں ہی چلی جاتی ہے۔
آج اگر ہم جدید سائنس کے اعتبار سے دیکھیں، تو ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہر چیز کے اندر زندگی واقعی موجود ہے۔ مطلب یہ کہ ہر جگہ آپ کو کہیں نہ کہیں اور کوئی نہ کوئی چھوٹے چھوٹے اور خوردبینی جان دار ملیں گے، جیسے اگر ہم چھوٹے چھوٹے بیکٹیریا (Bacteria) اور وائرس (Virus) کو دیکھیں، تو اُن میں بھی زندگی پائی جاتی ہے۔
تھیلیس ایک قسم کا نیچرل فلاسفر تھا اور اگر ہم سائنس کی نگاہ سے دیکھیں، تو شاید اُس کو ہم پہلا سائنس دان بھی کَہ سکتے ہیں۔ اُس نے اپنے زمانے میں "Miletus” کے لوگوں کو حیران و پریشان کردیا تھا۔ اُس نے پہلی سورج گرہن کی پیشین گوئی کی تھی۔ اُس نے کہا تھا کہ فُلاں تاریخ کو سورج کے سامنے چاند آئے گا۔ واقعی اُسی تاریخ کو سورج کے سامنے چاند آگیا تھا۔
٭ تھیلیس بحیثیتِ ایک ریاضی دان:۔ تھیلیس کو ریاضی کا بھی شوق تھا۔ اُس کو حساب کا بہت شوق تھا اور اُس نے کئی ایسی دریافتیں کیں جو کہ واقعی سچی ثابت ہوئی۔ وہ شاید وہ پہلا فرد تھا کہ جس نے "Diameter” کا تصور دیا کہ وہ لائن جو ایک دائرے (Circle) کو تقسیم کرکے مرکز سے گرتی ہے، اُس لائن کو "Diameter”کہتے ہیں۔ مزید جب اُس نے اُس کے اندر ایک مثلث (Triangle) کھینچا جوکہ اس دائرے کے "Circumference” کو ’’ٹچ‘‘ کرتا تھا، جس کی ایک سائڈ اُس کی "Diameter” تھی، یعنی اُس نے یہ کہا کہ اگر ہم دائرے کے اندر "Diameter” پر ایک مثلث بنائیں اور پھر اُس مثلث کو چاہے جس طرح کھینچیں، اُس کے "Diameter” کے مخالف جو زاویہ بنے گا، وہ ہمیشہ 90 درجے کا ہوگا اور پھر یہ بھی ثابت کیا کہ اگر دو مثلث ہیں اور دونوں ’’رائٹ اینگل ٹرائی اینگلز‘‘ (Right Angle Triangles) ہیں اور اگر اُن کی ایک سائیڈ برابر ہے، تو پھر اس کا مطلب ہوگا کہ ان دونوں مثلثوں کا ’’ایریا‘‘ بھی برابر ہوگا۔
٭ تھیلیس تھیرم (Thales Theorem):۔ پھر تھیلیس نے وہ تھیرم پیش کیا جو کہ آج بھی مثلثیات یعنی "Trigonometry” کی بنیاد ہے، جس کو ’’تھیلیس تھیرم‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر دو "Parallel Lines” ہوں اور وہ دو "Parallel Lines” مزید دو لکیریں "Intersect” کر رہی ہیں، یعنی وہ "Parallel Lines” اور مزید دو لکیریں ایک دوسرے کو کاٹ رہی ہوں اور یہ نقاط (Points) یعنی A، B، C، D، E،F بن رہے ہوں، تو پھر جو مخصوص فاصلے ہیں، وہ مخصوص انداز میں برابر ہوں گے۔ یعنی:
AD/AB = AE/AC = DE/BC
٭ پیرامڈ کی اُنچائی (Height of Pyramid):۔ تھیلیس کے اس تھیرم سے ہم کسی بھی مینار کے اونچائی کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ تھیلیس نے کہا کہ وہ مصر کے پیرامڈ کے اُنچائی کا اندازہ لگائے گا۔ سب سے پہلے اُس نے اپنی اُنچائی (Height) کو ناپ لیا۔ فرض کرلیں وہ 6 فٹ کا تھا اور پھر دھوپ میں کھڑے ہوکر اُس نے اُس وقت تک انتظار کیا کہ جب اس کا اپنا سایہ 6 فٹ کا ہوگیا اور عین اُسی وقت اُس نے پیرامڈ کے سائے کی "Length” ناپی اور اُس کو یہ پتا چل گیا کہ جو سائے کی لمبائی کی پیمایش ہے، وہی اس پیرامڈ کی اُنچائی ہے۔
٭ انسان سوچتا کیسے ہے؟
ایک انتہائی اہم سوال جس پر ہر فلاسفر نے لکھا ہے، وہ یہ کہ ’’انسان سوچتا کیسے ہے؟‘‘، ’’انسان حرکت کیسے کرتا ہے اور اپنے فیصلے خود کیسے کرتا ہے؟‘‘ تھیلیس کا خیال تھا کہ ہر وہ چیز جو حرکت کرتی ہے اور اپنے فیصلے خود کرتی ہے، اُس کے اندر در حقیقت روح ہے۔ انسان چوں کہ اپنا فیصلہ خود کرتا ہے، تو انسان کے اندر بھی روح ہے۔
تھیلیس کا یہ بھی خیال تھا کہ جانوروں کے اندر بھی روح ضرور ہوگی۔ مزید یہ کہ جو مقناطیس خود سے ہلنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اپنی مقناطیسیت کی وجہ سے، لہٰذا مقناطیس کے اندر بھی روح ہے…… یعنی وہ تمام چیزیں جو خود سے ہل سکتی ہیں، اس میں دراصل ایک روح پائی جاتی ہے ۔
٭ مونزم (Monism):۔ تھیلیس کا شاید سب سے اہم تصور یہ تھا کہ جس کا انسانی سوچ پر بہت بڑا اثر ہوا…… ’’تمام چیزیں جو ہمیں نظر آتی ہیں، وہ ایک ہی چیز کی بنی ہیں۔‘‘ یعنی ایک ہی چیز مختلف شکلیں اختیار کرلیتی ہے۔ تھیلیس کا خیال تھا کہ وہ چیز پانی ہے جو مختلف شکلیں اختیار کرلیتی ہے۔ کبھی انسان، کبھی پہاڑ، کبھی پتھر، کبھی درخت اور کبھی بادل وغیرہ۔ یعنی ہر چیز جو دنیا کے اندر ہمیں نظر آتی ہے، وہ تمام چیزیں درحقیقت صرف اور صرف پانی کی مختلف شکلیں ہیں۔ یہ تصور کہ دنیا کی ہر ایک چیز ایک مادے سے بنی ہے، اس کو "Monism” کہتے ہیں اور اس طرح کی سوچ رکھنے والے کو "Monist” کہا جاتا ہے۔ "Monism” اور "Dualism” کی بحث افلاطون کے دور سے شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے۔حتی کہ جدید سائنسی دنیا میں بھی اس تصور (مونزم) پہ بڑا مباحثہ ہوتا ہے۔
٭ زلزلے کی وجہ دیوتاؤں کی ناراضی:۔ یونان کے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ جب دیوتا ناراض ہو جاتے ہیں، تو اُس کے نتیجے میں زلزلے آتے ہیں۔ تھیلیس وہ پہلا انسان تھا کہ جس نے کہا کہ زلزلہ دیوتاؤں کی ناراضی کی وجہ سے نہیں آتا۔تھیلیس نے کہا کہ دراصل دنیا کا زمینی حصہ پانی پر تیر رہا ہے اور جب پانی ہلتا ہے، تو بڑی بڑی لہریں پیدا ہوتی ہیں اور اسی وجہ سے زلزلے آتے ہیں۔
بہرحال تھیلیس پہلا انسان تھا کہ جس نے فلسفے کی بنیاد رکھی بلکہ صرف فلسفے کی نہیں، سائنس کی بھی بنیاد رکھی۔
پہلا، دوسرا، تیسرا، چوتھا اور پانچواں لیکچر بالترتیب پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنکس پر کلک کیجیے:
1)  https://lafzuna.com/history/s-33204/
2)  https://lafzuna.com/history/s-33215/
3)  https://lafzuna.com/history/s-33231/
4)  https://lafzuna.com/history/s-33254/
5)  https://lafzuna.com/history/s-33273/
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔