تحریر و ترتیب: میثم عباس علیزئی
(’’فلسفہ کی تاریخ‘‘ دراصل لیکچرار کامریڈ تیمور رحمان کے مختلف لیکچروں کا ترجمہ ہے۔ یہ اسی سلسلے کا چوتھا لیکچر ہے، مدیر)
٭ مختلف اہم طبقات اور اہم تاریخی جھڑپیں:۔
یونان کی سیاسی نظام میں تبدیلی آرہی تھی اور غلامی نظام کے نتیجے میں جو اتنی ساری دولت اکٹھی ہو رہی تھی، اس دولت کے نتیجے میں ایک نیا طبقہ وجود میں آتا ہے جو کہ پرانے قبائلی لیڈرز کی نسبت مضبوط تر تھے اور اس نئے طبقے کے نظام کو ’’اولیگارکی‘‘ (Oligarchy) کہا جاتا تھا۔ ایک طرف پرانی قبائلی قیادت تھی اور دوسری طرف پیسے والا طبقہ تھا، ان کا آپس میں ایک سیاسی تضاد ہوتا ہے ۔
٭ ڈیماگاگ (Demagogue):۔ اس دور میں ایسے لیڈرز بھی پیدا ہوئے جو ’’ڈماس‘‘ (Demos) کی نمایندگی کرتے تھے۔ اسے "Demagogue” کہا جاتا تھا۔ "Gogue” کا مطلب ہے ’’زبان‘‘…… یعنی وہ لوگ جو ’’ڈماس‘‘ کی زبان بولتا ہو، یعنی جو ڈماس کے نقطۂ نظر کی نمایندگی کرتا ہو…… لیکن آج کل "Demagogue” اُن لوگوں کو کہا جاتا ہے، جو تقریر کے دوران میں ایسے نقطۂ نظر پیش کریں کہ جو سچ بھی ہوسکتا ہے اور جھوٹ بھی۔
٭ ٹائرینٹ (Tyrant):۔ مزید ایک ایسی قسم کا سیاسی لیڈر بھی پیدا ہوگیا جس کو "Tyrant” کہا جاتا تھا، آج کل "Tyrant” کا مطلب ’’نہایت بری قسم کا عامر‘‘ ہے، مگر اُس زمانے میں ایک ایسا فرد جو امیر طبقے سے اُن کی جائیداد غریب طبقے میں تقسیم کرتا، تاکہ نظام اعتدال سے چل سکے۔ وہ غلاموں کا نمایندہ تھا، نہ ڈماس کا۔ اُس کا تعلق ارسٹوکریسی طبقے سے ہوتا تھا، مگر فرق صرف اتنا تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح امیر طبقے اور ڈماس کے درمیان سمجھوتا قائم ہو۔
٭ ڈماس اور ارسٹوکریسی کے مابین جھڑپیں (Clashes Between Demos and Aristocracy):۔ یہ کہنا بڑا ضروری ہے کہ ایک ایسا دور تھا کہ جہاں طبقاتی تضاد بڑا کھل کے نظر آتا تھا۔ ’’برٹرنڈ رسل‘‘ (Bertrand Russell) لکھتے ہیں کہ "Miletus” شہر جو کہ فلسفے میں ایک اہم کردار ادا کرے گا، بلکہ فلسفے کا آغاز ہی یہی سے شروع ہوتا ہے، لیکن رسل "Miletus” کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ یہاں بہت تیزی سے کھلا تضاد نظر آرہا تھا۔ ’’فری مین‘‘ (Freeman) یعنی ’’ڈماس‘‘، ’’ارسٹوکریسی‘‘ طبقے کی عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیتے ہیں۔ بدلے میں ’’ارسٹوکریسی‘‘ کے طبقے کے لوگ نہ صرف ’’ڈماس‘‘ کے لیڈروں کو بلکہ ’’ڈماس‘‘ کے تقریباً تمام لوگوں کو پکڑ کر شہر کے چوکوں پر زندہ جلا دیتے ہیں۔ تو اس قسم کا بڑا طبقاتی تضاد ہمیں یونان میں نظر آتا ہے۔
٭ عورتوں کے حقوق:۔ یونان کا جو نظام تھا، اُس میں عورتوں کے بہت کم حقوق تھے۔ اُس وقت مرد، عورتوں پر غالب تھے…… بلکہ یونان والے یہ سمجھتے تھے کہ مرد ہی اعلا (Superior) ہے۔
اس طرح یونانیوں کا ایک ’’کانسپٹ‘‘ (تصور)تھا "The Hero” اور جو یونانی ہیرو تھا، وہ ایک کھلاڑی (Sportsman) اور فاتح ہوا کرتا تھا۔ اُس کو جنگ کا بڑا شوق ہوتا تھا…… تو عورتوں کے حوالے سے جو خیالات و تصورات تھے، وہ یہ تھے کہ یہ تو کم زور ہے، جنگ نہیں کرسکتی۔ لہٰذا اُن کے مطابق عورت، مرد سے کم درجہ حیثیت رکھتی ہے۔
اُس وقت اگر کوئی خاتون اثر و رسوخ رکھتی بھی تھی، تو وہ یا تو اپنی خاندان کی وجہ سے یا اپنے طاقت ور شوہر کی وجہ سے رکھتی تھی۔
٭ یونان و فارس جنگیں (Greco-Persian Wars):۔ یونانیوں کے لیے جو بڑا خطرہ تھا، وہ "Persian Empire” سے تھا۔ تقریباً 50 سال تک "Greek/ Persian War” چلتی رہی، یعنی 499 قبلِ مسیح سے 449 قبلِ مسیح تک۔ اس دوران میں یونان پر بہت حملے ہوتے رہے۔ فارس نے یونان کی فتح کی بہت کوشش کی، لیکن آخر میں یونان اِس وجہ سے بچ گیا کہ جب ’’اسپارٹا‘‘ اور ’’ایتھنز‘‘ نے ساتھ میں مل کر فارس کا مقابلہ کیا۔
’’اسپارٹا‘‘ اور ’’ایتھنز‘‘ مل کر فارس کے خلاف دفاع تو کرلیتے ہیں، مگر دفاع کے فوراً بعد اُن کی آپس میں جنگ شروع ہوتی ہے اور 431 قبلِ مسیح سے 404 قبلِ مسیح تک وہ آپس میں ہی لڑتے رہتے ہیں۔ ’’اسپارٹا‘‘ کو آخرِکار کامیابی ملتی ہے، جیسے ہم نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ’’ اسپارٹا‘‘ اور ’’ایتھنز‘‘ کا سیاسی نظام بالکل مختلف تھا۔ ’’اسپارٹا‘‘ میں حکومت مکمل طور پر ’’ارسٹوکریسی‘‘ کے ہاتھ میں تھی اور ’’ایتھنز‘‘ میں حکومت ڈماس اور ’’ارسٹوکریسی‘‘ کے درمیان سمجھوتے کی بنیاد پر تھی۔
٭ سکندرِ اعظم (Alexander):۔ بہرحال یونان نے اپنا دفاع تو کر لیا، لیکن جب سکندرِ اعظم اپنی فوج کے ساتھ نکلتا ہے، تو وہ نہ صرف یونان کا دفاع کرتا ہے بلکہ "Persia” کو بھی فتح کرلیتا ہے۔ وہاں سے افغانستان کے علاقوں کو فتح کرتا ہے۔ پھر آج کے پاکستان، انڈیا اور دریائے سندھ کے علاقوں تک آجاتا ہے۔ یہاں تیر کھا کر واپس دریا کے ذریعے ایران چلا جاتا ہے، جہاں اس کا انتقال بھی ہوجاتا ہے ۔
ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ یونان کی جو اپنی اندرونی سوچ اور سمجھ تھی، وہ یونان اور "Persia” کے درمیان تضادات اور لڑائیوں کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔
٭ فلسفے کا آغاز:۔
یہ وہ تمام پس منظر تھا، جہاں سے فلسفے کا آغاز ہوتا ہے۔
فلسفہ تب شروع ہوتا ہے کہ جب ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں کہ جو اپنے آپ کو اس زمانے کے مذہب سے علاحدہ کرکے قدرت کے اندر جو مختلف سوالات اُن کو نظر آتے ہیں، یا زندگی کے اندر جو مختلف سوالات اُن کو نظر آتے ہیں، اُن کو وہ قدرت کے اندر قوانین تلاش کرکے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُن میں مختلف شخصیات شامل ہیں جیسے’’تھلیس‘‘، ’’انیگزمینڈر‘‘، ’’اینگزیمنیس‘‘ وغیرہ…… لیکن ان کو ہم اگلی اقساط میں پڑھیں گے۔
مگر سب سے اہم بات یہ کہ سب سے پہلے فلاسفر کا یہ خیال تھا کہ یہ جو تمام چیزیں قدرت میں ہمیں نظر آتی ہیں…… یعنی درخت، پتے ، پہاڑ، آسمان، زمین، انسان اور جانور…… اور یہ تمام چیزیں جو مادے کی شکل میں نظر آتے ہیں، اِن تمام چیزوں کی بنیاد صرف ایک مادہ ہے اور وہ مختلف شکل اختیار کرلیتی ہے، یعنی کبھی انسان کی، کبھی جانور کی تو کبھی پہاڑ کی وغیرہ۔
تو فلاسفرز گویا کہ وہ لوگ تھے جو بنیادی سوالات پوچھتے تھے، جیسے:
"Existence” کیا ہے؟
مَیں کون ہوں؟
کہاں سے آیا ہوں؟
چیزیں کس طرح تبدیل ہوتی ہیں؟
زندگی کیا ہے؟
اور زندگی کا مقصد کیا ہے، وغیرہ۔
پہلا، دوسرا اور تیسرا لیکچر بالترتیب پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنکس پر کلک کیجیے:
1)  https://lafzuna.com/history/s-33204/
2)  https://lafzuna.com/history/s-33215/
3)  https://lafzuna.com/history/s-33231/
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔