محترم منصور ندیم! مشکور ہوں کہ آپ نے نیٹ فلیکس سیریز ’’ہیرامنڈی‘‘ بارے لکھا اور لکھائی کے حساب سے بہت خوب لکھا…… مگر کچھ تحفظات اور سوالات آپ کے لیے چھوڑ رہا ہوں۔ اُصولی طور پر آپ اس سیریز کے لیے نیٹ فلیکس پر نہیں گئے اور نہ ارادہ ہی ہے، تو آپ اس پر بانٹے گئے ’’گیان‘‘ پر تنقید کرنے کا حق بھی نہیں رکھتے۔ ویسے یہ میرا خیال ہے، آپ کا اس سے اتفاق ضروری نہیں۔
دوم آپ پہلے سے ایک موقف رکھتے ہیں جس پر آپ قائم ہیں، تو ایک ’’متعصب لکھاری‘‘ کے طور پر آپ کی تحریر سے اتفاق کیوں کیا جائے؟
سوم آپ سب کچھ یک سر مسترد کر رہے ہیں۔ کسی ذیلی صورتِ حال کو ماننے سے انکاری ہیں، بلکہ سب کچھ جسم فروشی، عصمت فروشی اور قحبہ خانے میں سمیٹ کر کچرے میں پھینک رہے ہیں، اس سے کیسے اتفاق کیا جائے؟
ساجد امان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/saj/
اس طرح مرزا سودا اور امراؤ جان ادا میں انسانی المیے اور اتفاقات کو بھی آپ مسترد کر رہے ہیں۔ اس کے ادبی پہلو سے بھی آپ منکر ہیں، جس پر مجھے اضطراب ہے۔ آپ غالب کے کوٹھے سے تعلق کو بھی کفر اور فکشن کَہ کر غصہ ٹھنڈا کرسکتے ہیں، مگر اس شعر سمیت متعدد اشعار و غزلوں کا تعزیہ کہاں لے جائیں؟
مَیں نے کہا کہ بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی
سُن کے ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یوں
ہاں، وہ نہیں خداپرست، جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین ودل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں
سر! موقع ملے، تو پڑھیں ’’مرقع دہلی‘‘ سے جو 1739ء کی تصنیف ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ طوائفیں کس درجہ شہر کی تہذیبی اورسماجی زندگی پرحاوی تھیں۔
’’مرقع دہلی‘‘ تھامس مٹکاف کی مرتب کردہ کتاب ہے۔ تھامس مٹکاف ایسٹ انڈیا کمپنی کا دہلی میں متعین سیاسی ایجنٹ تھا۔ مذکورہ کتاب 1844ء میں مکمل ہوئی تھی۔ اِس میں 120 منقش تصاویر موجود تھیں اور اُن منقش تصاویر کو مظہر علی خان نے تیار کیا تھا۔
تھامس مٹکاف آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے دربار میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایجنٹ تھا اور اس مرقع کی تیاری میں اُسے بہ راہِ راست مغل مصور میسر آئے۔ کتاب دراصل تھامس مٹکاف کی بیٹی ’’ایملی‘‘ (Emily) کے لیے بنائی گئی تھی، تاکہ اُسے لندن بھیجی جاسکے۔
’’مرقع دہلی‘‘ جنگِ آزادی ہند 1857ء سے قبل دہلی کی معاشرتی اور عوامی زندگی کے لیے اہم ترین ماخذ ہے، مگر اس کو بھی دفع کریں۔ مَیں مغلوں کے آباد کردہ مغل پورہ، تاج پورہ، باغباں پورہ وغیرہ سے کیسے انکار کروں، جہاں شالیمار باغ کے اردگرد باغ بان رہتے تھے اور باغ بانی کرکے شاہی خدمت کرتے تھے، اُن کی تاریخ کیسے جلا دوں؟
شاہی قلعے، حضوری باغ اور بادشاہی مسجد کے پڑوس میں مغنیوں اور رقاصاؤں کے ادب و تہذیب کو کیسے محض جسم فروشی قرار دوں، جہاں سے ادیب و شاعر پہچانے گئے، جہاں مغل شہنشاہ درباری حسن، موسیقی اور شاعری کو یک جا کرکے سرپرستی کرتے تھے؟
مَیں لکھنؤ کے بازار میں ادب شناس اور غزل گو آوازوں کو کیسے دفن کر دوں؟ پرانی دہلی معاف نہیں کرے گی، اگر گوشۂ فن و ادب کو فقط جسم کی منڈی فرض کرلوں۔
مَیں پوری دنیا میں ریڈ لائٹ ایریاز کی موجودگی اور ثقافت کے آسانی کے ساتھ یکساں ارتقا کرتی ہوئی دنیا کو کیسے برہنہ اجسام کا مقبرہ کہوں؟ یقینا جسم فروشی انتہائی غلط عمل ہے۔ کوئی بھی معاشرہ، کوئی بھی مذہب، کوئی بھی اخلاقیات اس کی حمایت شاید نہ کر پائیں، مگر مجھے یقین ہے کہ جیسے آپ نے نیٹ فلیکس پر جاکر ہیرا منڈی دیکھنے ہی کو مناسب نہ سمجھا، ایسے ہی آپ کبھی بازارِ حسن نہیں گئے ہوں گے!
دیگر متعلقہ مضامین: 
ہیرا منڈی کی مختصر ترین تاریخ (کامریڈ امجد علی سحابؔ) 
ہیرا منڈی، تصویر کا دوسرا رُخ (منصور ندیم)  
خواجہ سرا تاریخ کے آئینہ میں (اخلاق احمد قادری)
’’ہیرا منڈی‘‘ اور ’’بازارِ‘‘ حسن شاید ہم معنی ہوں…… مجبوریوں ، محرومیوں اور جرائم نے انھیں ایک کر دیا ہوم مگر آج بھی وہی بیٹھکیں قائم ہیں جو ایک عرصہ محافل کے لیے استعمال ہوتی چلی آئی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی پچھلی کسی دہائی میں قائم نہیں ہوا۔
آپ کو شاید تعجب ہو کہ ان بیٹھکوں میں آنے والے اکثر لوگ موسیقی سننے آتے ہیں اور اُن کا کسی جسم کو خریدنے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ آپ کو شاہی محلے میں آج بھی کئی نسلوں سے آباد اسی نسل کے لوگ ملیں گے، جن کی زبان کی شیرینی اور نشست و برخاست آپ کے بیانیے کی نفی کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ضیاء الحق کے دور میں یہاں پابندی لگی، تو فلم کی چراغ بجھ گیا اور جسم فروشی شہر میں پھیل گئی۔ آپ کو پنجاب کے ہر شہر میں مغل، افغان، خاندانِ غلاماں، سکھوں اور دیگر کی برکت سے قائم کئی محلے ملیں گے، جہاں شاعر، موسیقاروں اور مغنی مل کر محافلِ سماع گرماتے تھے۔ قصور اور قصور شہر کے ساتھ کوٹ رادھا کشن، اوکاڑہ، ساہیوال اور آگے ملتان میں فصیل آبادشہر کے اندر تک فن کدے آباد تھے۔ خیبرپختونخوا اور سندھ میں بھی آپ ان کی صدیوں پرانی موجودگی سے انکار نہیں کرسکتے۔ تان سین کو تاریخ سے غائب نہیں کیا جاسکتا۔ میڈیم نور جہاں بھی قصور کے اسی محلے سے نکلی۔ اب درجنوں نام ہیں جو آپ کو بھی معلوم ہوں گے۔
محترم منصور ندیم! ’’صرف جسم فروشی کے لیے یہ شاہی محلے قائم تھے‘‘ مجھ سے آپ کی یہ بات ہضم نہیں ہورہی۔ یہاں پیدا ہونے والوں کے علاوہ جو لوگ اس تہذیب کا حصہ بنتے گئے، اُن کی آمد پر بحث کی جاسکتی ہے۔ یہاں نشست و برخاست آج بھی بلا کی مہذب ہے۔ آپ یہاں آج بھی پاکیزگی کے احساس کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔
مَیں سعادت حسن منٹو کو کیسے بھسم کروں، جس نے کھوٹے کو مجسم کیا۔ اُس عدالت کا کیا کروں، جس نے اُن کو سزا دی۔ اُس جیل کو کیسے منہدم کروں، جہاں منٹو کو رکھا گیا۔
آپ نے اچھا لکھا ، جذبات میں لکھا ، مگر آپ کے یک سر انکار اور منفی طرزِ تخاطب پر مَیں معترض ہوں۔ دراصل طوائف کا وجود ایک تہذیب کا حصہ تھا، جس کی زندگی کے کھلے اور بند گوشے تجسّس پر اُکساتے تھے، نیم وا کھڑکیوں سے جھانکتے پردے اور پردوں کے پیچھے ایک خوش اخلاق ماحول شاعری، نثر اور مصوری میں موجود ہے۔
اصلاحات والے اُس وقت بھی تھے، شاہ اسماعیل شہید کی زندگی بھی ان اصلاحات میں گزری جو طوائفوں کے لبھائے لوگوں اور خود طوائفوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے کوشاں رہے۔اُن کے بارے میں ایک قصہ مشہور ہے کہ اُنھوں نے ڈھیر ساری خواتین کی ٹولیوں کو، جو بہت آراستہ و پیراستہ تھیں، راستے پر سے گزرتے دیکھا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ طوائفیں ہیں اورکسی ممتاز طوائف کے ہاں کسی تقریب میں شرکت کے لیے جارہی ہیں۔ شاہ صاحب نے اُنھیں راہِ راست پر چلنے کی ترغیب دینے کے لیے اِسے ایک اچھا موقع سمجھا اور فقیر کا بھیس بناکر اُس مکان کے اندر پہنچ گئے جہاں طوائفیں جمع ہورہی تھیں۔ اُن کی شخصیت میں بڑا وقار تھا اور اگرچہ اُنھیں اصلاح کا کام شروع کیے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا، تو صاحبِ خانہ نے اُنھیں فوراً پہچان لیا۔ اہلِ خانہ کے سوال کے جواب میں کہ وہ کیسے تشریف لائے ہیں؟ شاہ صاحب نے قرآن کی ایک آیت پڑھی اوروعظ کیا جس کوسن کرطوائفیں آب دیدہ ہوگئیں۔ ندامت سے آنسوبہانا طوائفوں کی تہذیب میں شامل تھا، اگرچہ نجات کی خاطر پیشہ ترک کردینا قابلِ تعریف تھا، مگر اسے خلافِ معمول سمجھا جاتا۔
طوائفیں اپنے خاص قاعدوں اوررسموں کے مطابق زندگی بسر کرتی تھیں اوراگرایک طرف ان کا پیشہ بہت گرا ہوا مانا جاتاتھا، تودوسری طرف بعض اعتبار سے اس نقصان کی کچھ تلافی بھی ہوجاتی تھی…… مگراس کے باوجود یہ کہنا غلط نہیں کہ اُس دور کی اصلاحی تحریکوں کا، جن کی رہنمائی سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید جیسے بزرگ کررہے تھے، پھر بھی شاعری، طوائفوں اور کوٹھوں پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ کیوں کہ طوائف کی جڑیں بہت مضبوط، گہری اور ادب سے جڑی تھیں۔
ایسا منٹو ہی کو لکھنا پڑگیا تھا۔ شاید طوائف کی زندگی کے خفیہ گوشے دیکھے ہوں یا طوائف کی زندگی لازمی جانی ہوگی جو جسم فروشی بھی کرتی تھی۔
آپ شہر میں خوب صورت اور نفیس گاڑیاں دیکھتے ہیں۔ یہ خوب صورت اور نفیس گاڑیاں کوڑا کرکٹ اٹھانے کے کام نہیں آسکتیں۔ گندگی اور غلاظت اُٹھا کر باہر پھینکنے کے لیے اور گاڑیاں موجود ہیں، جنھیں آپ کم دیکھتے ہیں۔ اور اگر دیکھتے ہیں، تو فوراً اپنی ناک پر رومال رکھ لیتے ہیں۔ ان گاڑیوں کا وجود ضروری ہے اور ان عورتوں کا وجود بھی ضروری ہے جو غلاظت کا ڈھیر اٹھاتی ہیں۔ اگر یہ عورتیں نہ ہوتیں، تو ہمارے سب گلی کوچے مردوں کی غلیظ حرکات سے بھرے ہوتے۔
سعادت حسن منٹو ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’بغاوتِ فرانس میں پہلی گولی پیرس کی ایک ویشیا نے اپنے سینے پر کھائی تھی۔ امرتسر میں جلیانوالہ باغ کے خونیں حادثے کی ابتدا اُس نوجوان کے خون سے ہوئی تھی جو ایک ویشیا کے بطن سے تھا۔‘‘
اس طرح ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں: ’’لکھنو اور دہلی کی طوائفیں ہماری ثقافتی تاریخ کا ایک رنگین حصہ ہیں، لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ ان کے خاتمے میں انگریزوں نے اہم کردار ادا کیا۔‘‘
محترم منصور ندیم! اختلافِ رائے اکیلے میرا نہیں، سب کا حق ہے۔ پھر بھی کوئی بات ناگوار گزری ہو، تو درگزر فرمائیے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔