ترجمہ: اشعر نجمی
مکہ میں ایک معمولی ٹیکسی ڈرائیور کے گھر پیدا ہوئی ’’منال الشریف‘‘ پوری دنیا میں مشہور ہوئے جون 2011ء کے "Darling to Drive” تحریک کے سبب جانی جاتی ہیں۔
منال الشریف سعودی عرب کی پہلی خاتون نہیں ہیں، جنھوں نے وہاں کی سڑک پر اسٹیرنگ وہیل پکڑی، اُن سے پہلے سنہ 1990ء میں 47 خواتین نے "Female Driving” پر لگی پابندی کی مخالفت میں سعودی عرب کی راجدھانی ریاض میں کار چلائی اور اقتدار کے استحصال کا شکار ہوئیں۔ اُن میں سے کئیوں کی نوکری چلی گئی۔ شوہر اور خاندان کی بیرونی ممالک کے اسفار پر پابندی نافد کر دی گئی اور بہتوں کو حوالات میں ڈال دیا گیا۔ مفتیوں نے اُن عورتوں کو بدچلن کہا اور امریکی اثرات کے تحت سعودی عرب کی ثقافت کو آلود کرنے کا الزام لگایا۔
20 سال بعد منال الشریف نے جب پھر سے عورتوں کے ڈرائیونگ کے حقوق کی بات کی، تو بنیادی فرق یہ تھا کہ منال نے اپنے کار چلانے کی ضرورت، خواہش اور حق کو سوشل میڈیا کے ذریعے ایک منظم مہم کی شکل دے دی، جو مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ میں چل رہے ’’عرب اسپرنگ‘‘ تحریک سے وابستہ ہوگی۔ حالاں کہ عرب اسپرنگ تحریک کا جیسا اثر مصر، تیونیشیا، سیریا اور یمن میں ہوا، ویسا سعودی عرب میں تو نہیں ہوا۔ پھر بھی وہ ان ہل چلوں سے لاتعلق بھی نہیں رہا۔ بعد کے دنوں میں بہ طورِ خاص 2019ء میں شاہی حکومت نے سعودی عرب میں عورتوں کی ڈرائیونگ، غیر ملکی اسفار، بچوں کی پیدایش کا رجسٹریشن کرانے جیسے حقوق دیے۔ اس کی جڑ منال الشریف کی تحریک اور اُسے ملی بے پناہ حمایت میں پوشیدہ ہے۔
حالاں کہ سعودی عرب میں عرب اسپرنگ کا بہ راہِ راست کوئی سیاسی اثر نہ پہنچا ہو، لیکن وہ اس سے بالکل اچھوتا بھی نہیں رہا۔ اگر منال الشریف جیسی عورتیں فیس بُک اور ایکس (سابقہ نام ٹوئٹر) کے ذریعے عورتوں سے کار چلانے کی اپیل کریں اور اسے لاکھوں لوگ پسند کریں، تو اس کا مطلب ہے کہ عورتوں پر عائد اس پابندی کے خلاف لاکھوں لوگ ان کے کار چلانے کی حمایت میں ہیں۔
یہاں پھر سے یاد دلانا ہوگا کہ کار چلانے کے مسئلے پر سعودی عرب میں جہاں عورتوں کو جیل ہوئی ہے، نوکریاں گئی ہیں، فتوے جاری ہوئے ہیں اور اُنھیں بدچلن اور رنڈی تک کہا گیا ہے، ویسی ریاست میں عورتوں کی سماجی حیثیت کیا ہے؟ اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کار اسٹیئرنگ پکڑنا صرف سڑک پر کار چلانے تک محدود نہیں۔ اس کے گہرے معنی بھی ہیں۔ یہ متحرک ہونے اور خود مختاری کا بھی بیان ہے کہ عورت اپنی زندگی کو خود چلا سکتی ہے اور شاید یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ منال الشریف کو بھی کار چلانا اپنے ذاتی تجربات کی بنا پر ضروری لگا، جب وہ شام کو آفس کے کام کے بعد دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس گئی اور لوٹنے میں دیر ہوگئی۔ ٹیکسی نہ ملنے پر اُنھیں راستے میں شہدوں کا سامنا کرنا پڑا اور دوڑ کر چھپ چھپا کر خود کو بچانا پڑا۔
منال کا المیہ یہ تھا کہ کار رہتے ہوئے بھی ’’ارامکو‘‘ (ایک کمپنی) کے احاطے کے باہر اُسے چلا نہیں سکتی تھیں۔ منال کا بھائی اُن کی مہم میں برابر ساتھ کھڑا ہے۔ کیوں کہ وہ اپنی بیوی اور بچے سے دور نوکری کرتا ہے۔ اُس کے شہر کے باہر ہونے پر اُس کی بیوی لاچار ہوجاتی ہے اور وہ بھی کار ہونے کے باوجود کچھ نہیں کر پاتی۔ لمبے فیلڈورک کے بعد جب وہ واپس گھر آتا ہے، تو آرام کرنے کے بہ جائے اُسے بیوی کو ساتھ لے کر باہر کے سارے کام نمٹانے پڑتے ہیں اور اس کا سارا وقت ڈرائیونگ میں ضائع ہوجاتا ہے۔
کرایے کی ٹیکسی سے کام چلانے والی عورتوں کے تجربوں کا ذکر کرتے ہوئے منال لکھتی ہیں کہ ’’سعودی عرب میں آئے دن عورتیں ٹیکسی ڈرائیوروں کے ذریعے کیے جانے والی بدسلوکی کا شکار بنتی ہیں۔ عورتوں کا تنہا جانا چلن میں نہ ہونے کی وجہ سے عورتیں ٹیکسی ڈرائیوروں کے ذریعے کیے جانے والی بدسلوکی کا شکار بنتی ہیں۔ عورتوں کا تنہا جانا چلن میں نہ ہونے کی وجہ سے ٹیکسی ڈرائیور تنہا عورت کی سواری کے لیے کوئی اچھی نظر نہیں رکھتے۔ اگر یہ تمام عورتیں کار چلانے لگیں، تو ممکن ہے ایسے تلخ تجربات سے محفوظ رہیں۔‘‘
محرم کے بغیر سعودی عورت کتنی لاچار ہے، اس کا ذکر مذکورہ کتاب میں کئی بار آتا ہے کہ کیسے ایک بچی گھر میں آگ لگنے سے جل گئی، لیکن اُسے بچانے کے لیے آگ بجھانے والا حفاظتی دستہ گھر کے اندر داخل نہیں ہوا۔ کیوں کہ وہاں کوئی مرد نہیں تھا، یا پھر کیسے کوئی عورت سرپرست کے بغیر اسپتال نہ جا پائی اور دم توڑ دیا۔
منال کی سوچ کو کمپیوٹر سائنس کے مطالعے نے بدلا تھا۔ شروع ہی سے پڑھائی میں اول رہنے والی منال ارامکو کمپنی کے انفارمیشن سیکورٹی اور ڈیٹا اینا لائس سے وابستہ تھی، جو کسی بھی سعودی عورت یا مرد کے لیے بہت بڑی کامیابی تھی۔ عورتوں کے لیے تو بہ طورِ خاص یہ خواب جیسا ہے۔
(پریتی چودھری کے ایک مقالے کا ترجمہ، بہ شکریہ ’’ماہ نامہ اثبات‘‘)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
