تحریر و ترتیب: میثم عباس علیزئی
(’’فلسفہ کی تاریخ‘‘ دراصل ڈاکٹر کامریڈ تیمور رحمان کے مختلف لیکچروں کا ترجمہ ہے۔ یہ اس سلسلے کا گیارھواں لیکچر ہے، مدیر)
٭ ہیراکلائٹس (Heraclitus):۔ ہیراکلائٹس کی پیدایش ہوتی ہے 535 قبلِ مسیح میں اور وفات ہوتی ہے 475 قبلِ مسیح میں۔
ہیراکلائٹس کا دراصل اشرافیہ طبقے سے تعلق تھا۔ وہ ایک امیر انسان تھا، لیکن اسے یہ شوق نہیں تھا کہ میں مزید پیسے کماؤں اور عیش و عشرت کی زندگی گزاروں۔
ہیراکلائٹس نے جب اپنی کتاب لکھی، تو اس نے وہ کتاب "Temple of Artemis” میں رکھوائی، ’’ٹیمپل آف آرٹیمیس‘‘جو کہ دنیا کے سات عجوبوں میں شامل ہے۔
ہیراکلائٹس بہت پُراعتماد اور بہت متکبر آدمی تھا۔ مثال کے طور پر فیثا غورث اور "Hesiod” کے بارے میں وہ کہتا تھا کہ ہاں کچھ پڑھے لکھے تھے، لیکن اُن کے پاس مکمل علم نہیں تھا۔ "Homer” کے بارے میں تو اُن کا خیال تھا کہ اُنھیں تو چھتر سے مارنا چاہیے۔
٭ ہیراکلائٹس کے کئی نام:۔ ہیراکلائٹس کے کئی نام تھے، جیسے ’’ہیراکلائٹس دی ریڈلر‘‘ (Heraclitus, The Riddler) کیوں کہ وہ پہیلیوں میں لکھا کرتا تھا۔ اُس کو پڑھنا اور سمجھنا بہت مشکل تھا۔ اُس کے بارے میں کہتے ہیں کہ اُس نے انسانیت سے نفرت کرنا شروع کیا تھا اور پہاڑوں میں چلا گیا تھا، وہاں اُس نے گھاس کھانا شروع کر دیا تھا۔ اُسے کوئی پروا نہیں تھی کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے…… یعنی وہ ایک درویش آدمی جیسا تھا۔ ہیراکلائٹس کو "The Weeping Philosopher, the Dark” بھی کہتے ہیں، اور اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ذہنی مریض تھا اور بڑی ڈارک قسم کی باتیں لکھتا تھا۔
٭ آگ (Fire):۔ ہیراکلائٹس کا خیال یہ تھا کہ تھیلیس، اینیگزیمینڈر اور اینیگزیمینیز درست کَہ رہے تھے کہ دنیا میں ہر ایک شے ایک ہی چیز سے بنی ہے، لیکن وہ چیز پانی ہے ، نہ "Aperion” اور نہ ہَوا بلکہ وہ چیز آگ ہے، جس سے تمام چیزیں بنی ہیں۔ حتیٰ کہ انسان کی روح بھی آگ اور پانی کا ملاپ ہے۔ اور جو انسان اچھا ہوتا ہو، یعنی اچھی سوچ رکھتا ہو، اُس کی روح آگ سے بنی ہوتی ہے۔ اور جو برا انسان ہے، اس کی روح پانی سے بنی ہوتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ آگ کے نتیجے میں دنیا تبدیل ہوتی نظر آتی ہے۔ جب ہم کسی چیز کو آگ میں ڈالتے ہیں۔ تو وہ جل کر، اُس کا کچھ حصہ راکھ بن جاتا ہے ، کچھ حصہ ہوا بن جاتا ہے اور کچھ حصہ آگ بن جاتا ہے اور جو ’’کریکنگ‘‘ (Cracking) کی آواز آتی ہے، وہ پانی کی توڑ پھوڑ کی آواز ہے۔
پرانے زمانے میں آگ کے حوالے سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ آگ ایک اوزار ہے جس کے زریعے آپ کسی بھی چیز کو دوسری چیز میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ ہیراکلائٹس کہتا تھا کہ”All things are interchanges of fire and fire for all things just like goods for gold and gold for goods.” یعنی کہ جس طرح ہم مارکیٹ میں جا کر سونا بھیج کر کوئی اور چیز خرید لیتے ہیں، اسی طرح آگ بھی چیزوں کو تبدیل کرتی ہے۔
٭ لوگاس (Logos) کا تصور:۔ ہیرا کلائٹس نے جو ایک اہم تصور پیش کیا، وہ تصور ’’لوگاس‘‘ (Logos) کا تصور تھا، یعنی ایک ایسا بنیادی تصور جس کا پوری فلسفے کی تاریخ پر اثر ہوا، یونانی زبان میں "Logos” لفظ کا مطلب تھا:”A ground, an opinion, expectation, word, speech, account, reason, formula, measure, proportion etc.” یعنی کہ ایک دلیل (Argument)۔
سوفسطائی (Sophists) بھی یہ لفظ استعمال کرتے تھے جن پر ہم بعد کے لیکچرز میں روشنی ڈالیں گے۔
ارسطو نے بھی یہ لفظ استعمال کیا اور ارسطو کا اس سے مطلب تھا ایک منطقی نقطۂ نظر، مگر ہیراکلائٹس کا مطلب تھا ایک بنیادی اصول (Order of Knowledge) یعنی کہ دنیا میں جو علم ہے، اُس کے پیچھے ایک پوشیدہ اصول ہے۔
ہیراکلائٹس "Logos” اور "god” کا لفظ "Interchangeable” استعمال کرتے تھے۔ کہیں پر "Logos” کا لفظ استعمال کرتے تھے اور کہیں پر "god” کا، یعنی کہ وہ بنیادی اصول اور وہ بنیادی چیز جس سے پوری کائنات چلتی ہے۔
ہیراکلائٹس کہتا تھا کہ”This Logos holds always but human always prove unable to understand it.” یعنی یہ ’’لوگاس‘‘ ہر جگہ قائم ہے، لیکن انسان کی سوچ اس کو سمجھ نہیں پاتی۔
٭ جدلیات (Dialects):۔ ہیرا کلائٹس کو جدلیات کا استاد بھی کہا جاتا ہے۔ ہیرا کلائٹس سے پہلے اینیگزیمینڈر اور اینیگزمینیز نے بھی جدلیات پر بات کی، لیکن وہ الگ الگ نتیجے پر پہنچے۔ اینیگزیمینڈر کا کہنا تھا کہ دنیا میں جتنی بھی چیزیں پیدا ہوتی ہیں، وہ اپنے اُلٹ کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں اور ان دو چیزوں میں مسلسل ایک جنگ جاری ہے۔
اینیگزیمینیز نے تھوڑا سا تبدیل کیا اور کہا کہ ہاں جنگ تو جاری ہے، مگر اس تضاد کے نتیجے میں ایک متوازن اور مسلسل تبدیلی بھی آرہی ہے۔
کون درست ہے…… اینیگزیمینڈر یا اینیگزمینیز……؟ یہ ایک سوال ہے۔
ہیراکلائٹس نے اس بحث کا جواب کچھ اس طرح دیا کہ دونوں ہی درست ہیں اور دونوں ہی غلط۔ (اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دونوں ہی درست ہوں اور دونوں ہی غلط۔)
ہیراکلائٹس نے پہلی بات یہ کہی کہ "Panta Rhai” یہ یونانی زبان کا اِک فقرہ ہے جس کا مطلب ہے کہ ہر ایک چیز مسلسل بہہ رہی ہے (Everything flows)
ہیراکلائٹس کہتا تھا کہ”Motion is the existence of things.” یعنی کہ کوئی بھی چیز مکمل طور پر ٹھہراو میں نہیں اور مکمل ٹھہراو ناممکن ہے، یعنی کہ چیزوں کا وجود ہی حرکت کی بدولت ہے۔ وہ کہتا تھا کہ”Ever newer water flows on those who step into the same river.” اس فقرے کا کئی طرح ترجمہ کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر "Everything changes and nothing remains still, You can not step twice into the same stream, We both step and do not step in the same river, We are and we are not, no man ever step the same river twice.” اس کا مطلب ہے کہ آپ ایک دریا میں قدم رکھتے بھی ہیں اور نہیں بھی رکھتے۔ آپ ہیں بھی اور نہیں بھی…… یا اگر ایک بندہ دریا میں قدم رکھے، تو نہ وہ دریا رہے گا اور نہ وہ بندہ۔
ہیراکلائٹس کا مطلب تھا کہ ایک لمحے سے جب ہم دوسرے لمحے میں جاتے ہیں، تو وہ دریا جو کہ پہلے تھا، اُس کا پانی اب تبدیل ہوچکا ہے اور جس پانی میں آپ نے پہلا قدم رکھا تھا، جب آپ دوسرا قدم رکھیں گے، تو وہ پانی تو آگے چلا گیا، اب جب آپ نے دوسرا قدم رکھا ہے، اب جو پانی آپ کے قدم کو چھو رہا ہے، وہ نیا پانی ہے۔
دوسرا یہ کہ وہ بندہ بھی تبدیل ہو چکا ہے۔ ایک لمحہ پہلے بندہ تھا at time 1.01 اور دوسرے لمحے وہ بندہ تھا at time 1.02، تو اُس بندے میں تھوڑی ہلکی تبدیلی آئی ہے، یعنی نہ تو وہ پانی وہی ہے اور نہ بندہ…… مگر دوسرے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے، تو دریا تو وہی دریا ہے، پہلے بھی وہ مثلاًدریائے سندھ تھا اور آج بھی وہی دریائے سندھ ہے، اور پہلے بھی وہی بندہ تھا اور دوسرے لمحے میں بھی وہی بندہ۔ وہ وہی فرد ہے مگر بالکل وہ نہیں ہے، یعنی وہ فرد بھی ہے اور ایک نیا فرد بھی ہے…… اور یہ وہی دریا ہے دریائے سندھ مگر بالکل وہی نہیں بھی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ وہی فرد ہے…… یعنی ٹھہراو بھی ہے، مطلب یہ کہ دونوں ٹھہراو اور تبدیلی ایک ساتھ۔
یہ جو تصور ہے کہ ٹھہراو اور تبدیلی اکٹھے ہوجائیں، ایک ہی وقت میں ہو رہے ہیں۔ یہ تو تضاد ہے۔ کیوں کہ ٹھہراو اور تبدیلی دونوں ایک دوسرے کے بالکل متضاد ہیں، تو یہ اکٹھے کیسے ہو سکتے ہیں؟ اس کو ہم فلسفے میں "Contradictory Predicate” کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دو متضاد چیزیں اکٹھی ہوجاتی ہیں۔
ہیریکلائٹس کو یہ بہت شوق تھا کہ تقریباً وہ تمام فلسفے کو "Contradictory Predicates” میں لکھا کریں۔ مثال کے طور پر وہ لکھتا تھا:
God is day and night
God is winter and summer
God is war and peace
یعنی خدا دونوں چیزیں ہے۔ دن بھی ہے رات بھی…… گرمی بھی ہے اور سردی بھی…… خدا جنگ بھی ہے اور امن بھی…… یعنی خدا "Contradictory” ہے، یعنی جس طرح سے ہم چیزوں یا دنیا کو اس طرح سے نہیں سمجھ سکتے جس طرح سے ہم دنیا کو سمجھتے ہیں۔
اولین دس لیکچر بالترتیب پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنکس پر کلک کیجیے:
1)  https://lafzuna.com/history/s-33204/
2)  https://lafzuna.com/history/s-33215/
3)  https://lafzuna.com/history/s-33231/
4)  https://lafzuna.com/history/s-33254/
5)  https://lafzuna.com/history/s-33273/
6)  https://lafzuna.com/history/s-33289/
7)  https://lafzuna.com/history/s-33302/
8)  https://lafzuna.com/history/s-33342/
9)  https://lafzuna.com/history/s-33356/
10) https://lafzuna.com/history/s-33370/
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔