تحریر و ترتیب: میثم عباس علیزئی
(’’فلسفہ کی تاریخ‘‘ دراصل ڈاکٹر کامریڈ تیمور رحمان کے مختلف لیکچروں کا ترجمہ ہے۔ یہ اس سلسلے کا سولھواں لیکچر ہے، مدیر)
٭ ڈیموکریٹس (Democritus):۔ ڈیموکریٹس کی تقریباً 460 قبلِ مسیح میں پیدایش ہوتی ہے اور 370 قبلِ مسیح میں اس کا انتقال ہوتا ہے۔
ڈیموکریٹس کا یہ ماننا تھا کہ ایک "Untrouble” زندگی گزارنی چاہیے۔ ایسی زندگی کہ جس میں آپ علم حاصل کریں اور خوش رہیں۔
ڈیموکریٹس کہتا تھا کہ جب آپ دنیاوی چیزوں کے پیچھے بھاگیں گے، تو آپ کبھی خوش نہیں رہ سکتے۔
ریاضی میں ڈیموکریٹس شاید پہلا ہی بندہ تھا، جس نے مشاہدہ کیا کہ "Prism” کا جو "Volume” ہوتا ہے، وہ اُس کے "Base” کے حساب سے ہوتا ہے، یعنی کہ ایک ہی "Base” کا "Cylinder” اور ایک ہی اُسی "Base” کا اگر ہم "Prism” بنائیں، تو وہ سلنڈر کے والیوم کا ایک بٹا تین ہوگا۔
مزید یہ کہ ڈیموکریٹس نے پرمینڈیز کے تھیری (Theory) پر غور کرنا شروع کرلیا۔ اُس نے اِس چیز سے اتفاق کیا کہ ہمارے سامنے چیزیں تبدیل ہوتی نظر آرہی ہیں، مگر اِس کے ساتھ ساتھ اُس کا یہ بھی خیال تھا کہ جو تبدیلی ہمیں نظر آرہی ہے، اُس کی بنیاد کوئی ایسی پرمینیڈین "Parmenidian” چیز ہے، جو کہ تبدیل نہیں ہو رہی۔
پرمینیڈیز کی تھیری کو پڑھ کر وہ یہ کہتا تھا کہ خلا میں سے کوئی چیز پیدا نہیں ہوسکتی، مگر پرمینیڈیز جب اس نتیجے پر پہنچا کہ خلا میں سے کوئی چیز پیدا نہیں ہو سکتی، تو خلا ہے ہی نہیں…… لیکن ڈیموکریٹس بالکل اُس کے اُلٹ نتیجے پر پہنچا کہ اگر خلا میں سے کوئی چیز پیدا نہیں ہوسکتی، تو وہ جو چیز ہے، وہ خلا سے علاحدہ ہے، یعنی خلا جو ہے وہ مختلف چیزوں کے درمیان پائی جا سکتی ہے۔
اُس نے سوچا کہ اگر آپ کوئی بھی چیز لیں، جیسے سیب لے لیں…… اُس کا آدھا حصہ کرلیں۔ پھر اُس آدھے حصے کا آدھا حصہ کرلیں۔ پھر اُس آدھے حصے کا آدھا حصہ کرلیں، تو ایک ایسا ذرا نکلے گا کہ جس کو مزید آدھا نہیں کیا جاسکتا۔ وہ "Uncuttable” ہوگا۔ اور جس کو مزید کاٹا نہیں جاسکتا، اُس کو یونانی زبان میں ایٹم (Atom) کہتے ہیں۔
ڈیموکریٹس نے تھیری بنائی "The Atomic Theory” اور وہ تھیری یہ تھی کہ دنیا کے اندر جو چیز مادے کی بنیاد ہے، وہ چھوٹے چھوٹے "Uncuttable” ذرے ہیں، اور اُن ذروں کے درمیان صرف اور صرف خلا ہے۔ وہ خلا جس کی پرمینڈیز بات کر رہا تھا۔ وہ ذرے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہیں۔
ڈیموکریٹس کا خیال تھا کہ ایٹمز (Atoms) ایک جیسے نہیں، بلکہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
وہ یہ کہتا تھے کہ کچھ "Smooth” ایٹم ہیں اور کچھ گول۔ کچھ ایٹموں کا ایک رنگ ہے تو کچھ کا دوسرا۔ نیز ڈیموکریٹس کہتا تھا کہ ایٹم کے اندر ایٹم جیسے ہوکس بنے ہوئے ہیں…… اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ اُن سے ایٹمز ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ آج ہمیں پتا ہے کہ ایٹم کے کوئی ہوکس نہیں ہوتے۔ اُن میں مختلف قسم کے بونڈز (Bonds) ہوتے ہیں، جیسے ’’آیونک بونڈ‘‘ (Ionic Bond)، "Covalent” اور "Metallic” بونڈ وغیرہ۔
مگر تصور کتنا مزیدار ہے کہ کسی آلے کے بغیر ڈیموکریٹس بتا رہا ہے کہ ایٹم کس طرح جڑتے اور کس طرح ٹوٹتے ہیں…… اور ان کی مختلف شکلیں اور خصوصیات کیا ہیں!
٭ انسان کی روح:۔
ڈیموکریٹس کا خیال تھا کہ انسان کی روح جو ہے، وہ بھی ایٹم سے بنی ہے۔ جب انسان مر جاتا ہے، تو اُس کا کہنا تھا کہ جو ہماری روح کے ایٹم ہیں، وہ مرنے کے بعد پھیل جاتے ہیں اور کسی اور روح کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اس طرح ڈیموکریٹس کا خیال تھا کہ جب ہم چیزوں کو دیکھتے ہیں کہ جس طرح ایمپیڈکلیز نے کہا تھا کہ ہماری آنکھوں سے شعاعیں نکلتی ہیں، لیکن اس کا یہ خیال تھا کہ ایسا نہیں۔ ڈیموکریٹس کا کہنا تھا کہ یہ دراصل ہم چاند کی طرف دیکھتے ہیں، تو چاند کے جو ایٹم ہیں، وہ ہماری آنکھوں کے اندر آتے ہیں۔ اس طرح ہم اُن کو دیکھ سکتے ہیں۔ یعنی چاند کے ایٹم ہیں، روح کے ایٹم ہیں اور ہر قسم کے ایٹم ہیں۔
ایک ایٹم اور دوسرے ایٹم کے درمیان خلا ہے، وہ خلا جس کے بارے میں پرمینڈیز کہتا تھا کہ وہ وجود نہیں رکھتا۔ اسی طرح دنیا کا جو مادہ ہے، جو ہر طرف پھیلا ہوا ہے، وہ بنیادی طور پر "Internal Indestructible” ایٹم سے بنا ہوا ہے، اور ان کے درمیان صرف خلا ہے۔
نیز ڈیموکریٹس کی اس پوری تھیری میں دیوتاؤں کی کوئی گنجایش نہیں…… یعنی اس کے مطابق دنیا ایٹموں سے بنی ہوئی ہے اور ایٹم کی مدد سے چل رہی ہے۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ ڈیموکریٹس جو ہے وہ ایک "Materialist” ہے۔
اس کے علاوہ ڈیموکریٹس نے اپنی "Atomic Theory” کی بنیاد پر ایک پورا فلسفہ کھڑا کیا۔ علم کا فلسفہ، "Metaphysics” کا فلسفہ، "Epistemology” کا فلسفہ۔
٭ علمیات (Epistemology):۔ ڈیموکریٹس کا خیال تھا کہ دو قسم کے علوم ہیں:
1) ایلی جی ٹی میٹ ناولج (Illegitimate Knowledge)
2) لی جی ٹی میٹ ناولج (Legitimate Knowledge)
٭ الی جی ٹی میٹ، علم کا وہ اپروچ ہے کہ جو ہم اپنی حس سے دیکھتے ہیں، سنتے ہیں یا چھو کر محسوس کرکے ہمارے ذہنوں تک پہنچتا ہے اور یہ کبھی سو فی صد درست نہیں ہو سکتا۔
٭ لی جی ٹی میٹ علم، ان معلومات کو درست کرنے کے لیے ہم نے اس کو "Inductive Logic Process” سے گزرنا ہوگا۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ایک معلومات دوسری کو "Conflict” تو نہیں کرتی…… اور ان دونوں میں سے کون سی معلومات درست ہے اور اس طرح اس کو "Process” کرکے جو ہم معلومات حاصل کرتے ہیں، جس کو "Inductive Logic” کے ذریعے گزار کے جو علم ہم حاصل کرتے ہیں، وہی صرف ’’لی جی ٹی میٹ ناولج‘‘ ہے اور وہی صرف درست علم ہے۔
٭ نیچرل میکینزم (Natural Mechanism):۔ ڈیموکریٹس کی جو ایٹامک تھیری تھی، اُس میں ایک "Natural Mechanism” ہے، ایک قدرتی نظام ہے، جو کہ دنیا کو چلا رہا ہے۔ اس میں کسی ایسے ذہن کی ضرورت نہیں کہ وہ اُس کو حکم دے، اُس کو تبدیل کرے ، وہ اُس کو آگے لے کے جائیں، یا پیچھے لے کے جائیں، پس یہ کائنات ایک مشین کی طرح ہے۔
آخر میں یہ کہ ڈیموکریٹس وہ پہلا فرد تھا کہ جس نے "Milky Way” کو اخذ کیا اور اُس نے تصور دیا کہ یہ تمام "Milky Ways” جو ہیں، یہ دور ستارے ہیں، دور سورج ہیں، مختلف سورج ہیں جو کہ ہم سے انتہائی دور ہیں۔
ڈیموکریٹس کی سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ تاریخ میں پہلا ریکارڈیڈ شخص ہے کہ جس نے یہ پیش کیا کہ کائنات کے اندر کئی دنیائیں ہیں اور کوئی ایسی دنیا بھی ضرور ہوگی کہ جہاں ذہانت کی زندگی ہوگی کہ جہاں اور قسم کے لوگ اور قسم کے جانور بستے ہوں گے۔
سائنس "Fiction” آج بھی اس پر فلمیں بناتی ہے کہ جہاں ایلین ہیں، کسی اور دنیا پر، یہ تصور ڈیموکریٹس نے دیا۔
سوچنے کی بات ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ آج سے 25، 26 سو سال پہلے ایک بندہ ہے، جو اٹامک تھیری پیش کرتا ہے، وہ ایٹامک تھیری تو نہیں جو آج کی ہے، مگر ایک قسم کی اٹامک تھیری تو ہے، مکمل طور پر درست نہیں مگر اپنی بنیاد میں درست ہے۔
اگر اس کی منطق کی طرف ہم دیکھیں، تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ ہراکلائٹس اور پرمینیڈیز کے درمیان جو بحث ہے کہ تبدیلی ہو رہی ہے، یا نہیں ہو رہی۔ اگر ہو رہی ہے تو "Being” اور "Non Being” کی "Interaction” سے ہو رہی ہے…… اور اگر نہیں ہو رہی، تو یہ انٹریکشن ناممکن ہے۔ کیوں کہ "Non Being” ہے ہی نہیں…… لیکن ڈیموکریٹس یہ کہتا ہے کہ وہ "Non Being” ہے…… یعنی خلا ہے۔ اگر خلا ہے، تو جو مادہ ہمیں نظر آتا ہے، اُس کا جو سب سے چھوٹا ذرہ ہے، اُس کے درمیان خلا ضرور موجود ہے۔ اِسی طرح اُس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تمام مادہ جو ہے، وہ چھوٹے چھوٹے ذروں سے بنا ہوا ہے…… جس کو اس نے نام دیا ہے ’’ایٹم‘‘۔
بہرحال ڈیموکریٹس کی یہ تھیری واقعتا حیران کن ہے کہ بغیر کسی آلے، بغیر کسی مادے کے حوالے سے بنیادی علم کے، صرف اور صرف منطق کی بنیاد پر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ دنیا ایٹم سے بنی ہوئی ہے۔
اولین 18 لیکچر بالترتیب نیچے دیے گئے لنکس پر ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں:
1)  https://lafzuna.com/history/s-33204/
2)  https://lafzuna.com/history/s-33215/
3)  https://lafzuna.com/history/s-33231/
4)  https://lafzuna.com/history/s-33254/
5)  https://lafzuna.com/history/s-33273/
6)  https://lafzuna.com/history/s-33289/
7)  https://lafzuna.com/history/s-33302/
8)  https://lafzuna.com/history/s-33342/
9)  https://lafzuna.com/history/s-33356/
10) https://lafzuna.com/history/s-33370/
11) https://lafzuna.com/history/s-33390/
12) https://lafzuna.com/history/s-33423/
13) https://lafzuna.com/history/s-33460/
14) https://lafzuna.com/history/s-33497/
15) https://lafzuna.com/history/s-33524/
16) https://lafzuna.com/history/s-33549/
17) https://lafzuna.com/history/s-33591/
18) https://lafzuna.com/history/s-33611/
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔