ریاستِ سوات دور کا ایک افسوس ناک واقعہ

Blogger Riaz Masood

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
ریاستِ سوات کے صدر مقام سیدو شریف میں ریاستی نیم مسلح نفری کی ایک مخصوص تعداد تعینات تھی، جو معمول کے مرمت کے کام، جیسے پتھر سے بنی گلیوں اور نالیوں کی مرمت و بہ حالی کے کاموں میں مصروف رہتی تھی۔ انھیں ریاستی ملیشیا کی طرح سال میں دو بار اجناس کی صورت میں اجرت دی جاتی تھی۔ ان کا رینک ملیشیا کے سپاہیوں کے برابر تھا۔ ان کی سربراہی عبد الواحد اور غلام رسول نام کے دو صوبے دار کرتے تھے۔ یہ تمام مزدور معروف شخصیت ’’ناخوَد کپتان‘‘ کی نگرانی میں کام کر رہے تھے۔ پلمبر، بڑھئی، الیکٹریشن اور خاک روبوں کو نقد ادائی کی جاتی تھی۔ ریاست کے محکمہ پی ڈبلیو ڈی کی تنظیمِ نو کے بعد، یہ تکنیکی مزدور اور صوبے دار عبد الواحد محکمہ پی ڈبلیو ڈی کے سربراہ محمد کریم خان کے ماتحت کر دیے گئے۔ غلام رسول صوبے دار اور دیگر مزدور ناخوَد کپتان کے ماتحت ہی رہے۔
صوبے دار عبد الواحد ایک فرض شناس افسر تھے اور جلد ہی محمد کریم خان ایس ڈی اُو، پی ڈبلیو ڈی کا اعتماد حاصل کرلیا۔ کریم خان نے ریاست کی عمارتوں کی روزمرہ دیکھ بھال کی ذمے داری ان کے سپرد کر دی، جس کے نتیجے میں اعلا افسران بھی ان سے چھوٹے موٹے مرمت کے کام کے لیے رجوع کرتے۔ اس طرح ان کا ان افسران کے ساتھ قریبی تعلق بن گیا۔
ان کے بیٹے بھی با اخلاق اور نیک کردار تھے۔ ان کا گھر افسر آباد میں محکمہ پی ڈبلیو ڈی کے دفتر کے قریب تھا۔ ان کا بڑا بیٹا روخان، جہانزیب کالج میں بی ایس سی کے طالب علم تھا اور صوبے دار صاحب کے اثر و رسوخ کی وجہ سے وہ افسر آباد کے افسران کے بیٹوں میں بھی مقبول تھا۔
ریاستِ سوات کے انضمام کے بعد تقریباً ایک سال تک حالات معمول کے مطابق رہے۔ انھی دنوں زمرد کی کان میں فائرنگ کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا تھا، جس میں کئی لوگ جاں بہ حق ہو گئے تھے اور ایف سی کو امان کوٹ اور دیگر مقامات پر تعینات کر دیا گیا تھا۔
ایک شام، روخان امان کوٹ سے واپس اپنے گھر جا رہا تھا کہ اسے برساتی نالے (خوَڑ) کے کنارے کھیتوں میں کوئی چیز ملی۔ اس نے خیال کیا کہ یہ سکوٹر کا کوئی پرزہ ہے۔ وہ اس پرزے کو اٹھا کر گھر لے آیا۔ سردیوں کا موسم تھا، شام کے وقت اس کی والدہ روٹیاں پکا رہی تھیں۔ صوبے دار صاحب اور ان کے بیٹے قریب بیٹھے آگ تاپ رہے تھے۔ اچانک روخان وہ چیز لے کر آیا اور اپنے بھائی کے پاس بیٹھ گیا۔ بیٹھتے ہی اس نے اس چیز کا باہر نکلا ہوا ہک کھینچ نکالا اور اسے اپنی گود میں رکھ لیا۔ اچانک ایک زوردار دھماکا ہوا۔ اس دھماکے میں روخان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے، جب کہ اس کے بھائی اور والدہ بھی بری طرح زخمی ہوگئیں۔ صوبے دار صاحب کے سینے اور ٹانگوں میں بھی متعدد چھرے لگے، جس سے ان کی ایک ٹانگ تقریباً پھٹ گئی۔ یہ در اصل ایک ’’گرینیڈ‘‘ تھا اور وہ نکلا ہوا حصہ ایک حفاظتی پن تھا۔ یاد رہے کہ اُس وقت ’’گرینیڈ‘‘ کا نام تو سب نے سن رکھا تھا، مگر کسی نے اسے دیکھا نہیں تھا۔ وہ اس کے ’’میکانزم‘‘ سے ناواقف تھے اور شومئیِ قسمت سے انھوں اس کا حفاظتی پن کھینچا تھا۔
صدمے کے باوجود صوبے دار صاحب نے ہمت سے کام لیتے ہوئے اپنے حواس کو قابو میں رکھا اور ایک ایک کر کے زخمیوں اور لاشوں کو کمرے سے باہر نکالا۔ وہ ان کے ساتھ بیٹھے رہے اور لوگوں کے آنے کا انتظار کیا۔ جلد ہی پڑوسی پہنچ گئے اور صوبے دار صاحب کو سیدو ہسپتال منتقل کیا گیا، جب کہ جاں بہ حق ہونے والوں کو اُن کے آبائی گاؤں مَنگلور لے جایا گیا، جہاں ان کی تدفین کی گئی۔
 ……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے