(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
میری آنکھ 5 اپریل 1943ء کو ایک ایسے گھر میں کھلی جو بڑے بڑے گھروں کی ایک جھرمٹ میں سب سے پہلا مکان تھا۔ مکانوں کے اس مجموعے کو افسر آباد کا نام دیا گیا تھا۔ ہمارے گھروں کا سائز اور گنجایش ایک جیسی نہیں تھی، لیکن میرے بچپن اور جوانی کے وہ ماہ و سال آج بھی میری یادوں میں تازہ ہیں۔ بعد میں ہم بھی دو بڑے گھروں میں رہے۔ ایک گھر کیپٹن عبد الحنان نے اپنی ریٹائرمنٹ پر خالی کیا تھا اور دوسرے میں اخوند زادہ بابو صاحب رہایش پذیر رہا تھا۔ پھر 1967ء میں، والی صاحب نے میرے والد کو دو بنگلوں میں سے ایک کا انتخاب کرنے کی پیش کش کی: بنگلہ نمبر 1 جو کالج کالونی میں تھا اور دوسرا اے بی 2 افسر آباد میں۔ چوں کہ ہمیں افسر آباد والے گھر سے زیادہ اُنس تھا، اس لیے میرے والد نے اے بی 2 کا انتخاب کیا۔ ہم نے 1967ء سے 1981ء تک اسی گھر میں زندگی کے دن گزارے۔ میرے والد کا 7 دسمبر 1979ء کو اسی گھر میں انتقال ہوا تھا۔ ان کی میت کو ڈاکٹر نجیب اللہ کی مہربانی سے سیدو ہسپتال کی ایمبولینس میں ابوہا لے جایا گیا تھا۔
ہمارا بچپن چین سے گزرا۔ ہم نے ہائی سکول شگئی میں پڑھائی شروع کی، جو اُس وقت لوئر مڈل سکول تھا۔ مجھے یاد ہے کہ سید عمر (مرحوم) اُس وقت سکول کے انچارج تھے۔ مَیں اپنے بڑے بھائی فضل وہاب کے ساتھ سکول جاتا، جو مجھ سے دو جماعت آگے تھے، لیکن مجھے ایک سپیشل کیس کے طور پر 4 یا 5 ماہ کے وقفے میں امتحان دینے کی اجازت ملی، اور یوں مَیں نے پانچویں جماعت میں اُن کو جالیا۔ یکم اپریل 1952ء، جب مرکزی جیل کو ودودیہ ہائی سکول میں تبدیل کیا گیا، تو سیدو نالہ کے جنوب میں رہنے والے طلبہ کو ہائی سکول شگئی میں ہی رہنا پڑا، جب کہ شمالی طلبہ کو ودودیہ ہائی سکول منتقل کر دیا گیا۔ مَیں بھی بھائی سمیت ودودیہ ہائی سکول جانے لگا۔
1956ء میں پشاور یونیورسٹی سے مڈل کا امتحان پاس کرنے کے بعد، میرے بڑے بھائی نے سکول چھوڑ دیا اور ہندوستان چلے گئے۔ اُن کے بغیر میں اکثر خود کو غیر محفوظ اور تنہا محسوس کرتا تھا۔ میرے بچپن میں سیدو شریف ایک چھوٹا، غیر مصروف اور انتہائی صاف ستھرا اور ایک پُر امن، پُر سکون اور پیارا گاؤں تھا۔ یہاں تقریباً 10 کریانہ کی دکانیں، دو سبزی فروش، تین نائی کی دکانیں، ایک سوڈا واٹر اور تین کپڑے کی دکانیں تھیں۔ نائیوں میں خان باز زیادہ مشہور تھا اور جوانوں اور بوڑھوں میں یک ساں طور پر مقبول تھا۔ امیر حاتم والی صاحب کا ذاتی حجام تھا۔ اکثر افسران طبقہ بھی اس کی خدمات لیتا تھا۔ نور محمد ایک اور نائی تھا، جس کی دکان پر ہم مہینے میں ایک بار بال کٹوانے جاتے تھے اور اسے دو روپے ماہانہ ادا کرتے تھے۔ روزمرہ استعمال کی اشیا ہم رحمدل کی دکان سے لاتے تھے۔
چمڑو استاد کے نام سے مشہور ایک اور دکان دار تھا۔ وہ لکڑی کے تختے پر چوڑیاں، کاجل اور چھوٹے گول آئینوں سے مزین نسوار کے ڈبے سجاتا تھا۔ بچے اکثر اسے ’’منافق استاد‘‘ کَہ کر مذاق اڑاتے تھے۔ اس نے اس کی شکایت والی صاحب سے کی، اور انھوں نے حکم دیا کہ اگر کوئی بچہ انہیں ’’منافق‘‘ کہے گا، تو اس کے والدین کو 5 روپے جرمانہ کیا جائے گا، جو اس وقت ایک بڑی رقم تھی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔