پوری دنیا میں یہ رواج سا بن گیا ہے کہ لوگ اکثر ادھوری معلومات کی بنیاد پر ہی رائے قائم کرلیتے ہیں اور اُس رائے کو حتمی بھی تصور کرلیتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو یہ پریکٹس معمول سے بھی کچھ زیادہ ہی ہے۔ کبھی کسی نے تصویر کے دونوں رُخ دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ بس ایک رُخ دیکھا اور رائے قائم کرلی۔ بعض اوقات تو ہمیں کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے پورے رُخ کو دیکھنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ معمولی سی ایک جھلک دیکھ کر ہی ہم ’’لفافہ دیکھ کر خط کا مضمون بھانپ لیتے ہیں‘‘ اور شرمندگی تب ہوتی ہے، جب تصویر کا دوسرا رُخ سامنے آتا ہے، یا لفافے میں سے خط باہر آتا ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
ایک عورت سڑک پر ایک آدمی کے پاس آتی ہے اور کہتی ہے: ’’معاف کیجیے جناب! مَیں ایک چھوٹا سا سروے کر رہی ہوں۔ کیا مَیں آپ سے کچھ سوال کر سکتی ہوں؟‘‘
آدمی کہتا ہے: ’’جی بالکل، پوچھیے!‘‘
عورت: ’’فرض کریں آپ بس میں بیٹھے ہیں اور ایک خاتون بس میں سوار ہوئی۔ اُس کے پاس سیٹ دستیاب نہیں۔ کیا آپ اُس کے لیے اپنی سیٹ چھوڑ دیں گے؟‘‘
آدمی: ’’نہیں!‘‘
اُس عورت نے اپنے پاس موجود پیپر پر نظر دوڑاتے ہوئے ’’بے ادب‘‘ کے خانے پر ٹک کرتے ہوئے دوسرا سوال کیا: ’’اگر بس میں سوار خاتون معذور ہو، تو کیا آپ اپنی سیٹ چھوڑ دیتے؟‘‘
آدمی: ’’نہیں!‘‘
اب کی بار ’’خودغرض‘‘ پر ٹک کرتے ہوئے عورت نے اگلا سوال کیا: ’’اور اگر وہ خاتون جو بس میں سوار ہوئی، وہ ایک بزرگ خاتون ہو، تو کیا آپ اسے اپنی سیٹ دیں گے؟‘‘
آدمی: ’’نہیں!‘‘
عورت: (غصے سے) ’’تم ایک نہایت خود غرض اور بے حس آدمی ہو، جس کو خواتین کا احترام ، بڑے اور ضعیف افراد کے ساتھ حُسنِ سلوک کے آداب نہیں سکھائے گئے۔‘‘
یہ کہتے ہوئے عورت آگے چلی گئی۔
پاس کھڑا دوسرا آدمی جو یہ بات چیت سن رہا تھا، وہ اُس پہلے بندے سے کہتا ہے: ’’اس عورت نے اتنی باتیں سنائیں، تم نے کوئی جواب کیوں نہیں دیا؟‘‘
اُس آدمی نے جواب دیا: ’’یہ عورت اپنی چھوٹی سوچ اور آدھی معلومات کی بنا پر سروے کرکے لوگوں کا کردار طے کرتی پھر رہی ہے۔ اگر یہ مجھ سے سیٹ نہ چھوڑنے کی وجہ پوچھتی، تو مَیں اُسے بتاتا کہ مَیں ایک بس ڈرائیور ہوں۔ اس لیے کسی اور کو سیٹ نہیں دے سکتا۔‘‘
ادھوری معلومات کی بنیاد پر جلد بازی میں کی گئی رائے قابلِ اعتبار نہیں ہوتی۔ اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ پہلے بات کو تولو پھر بولو۔ تولے بغیر بولنا بے وقعت اور بے وزن ہوتا ہے۔
ماسٹر عرفان بچے کو بڑی جان مار کے حساب سکھا رہے تھے۔ وہ ریاضی کے ٹیچر تھے۔ اُنھوں نے بچے کو اچھی طرح سمجھایا کہ دو جمع دو چار ہوتے ہیں۔ مثال دیتے ہوئے اُنھوں نے اُسے سمجھایا: ’’یوں سمجھو کہ مَیں نے پہلے تمھیں دو کبوتر دیے، اُس کے بعد پھر دو کبوتر دیے، تو تمھارے پاس کل کتنے کبوتر ہو گئے؟
بچے نے اپنے ماتھے پہ آئے ہوئے سلکی بالوں کو ایک ادا سے پیچھے کرتے ہوئے جواب دیا: ’’ماسٹر جی، پانچ……!‘‘
ماسٹر صاحب نے اسے دو پنسلیں دیں اور پوچھا: ’’یہ کتنی ہوئیں؟‘‘
بچے نے جواب دیا: ’’دو!‘‘
پھر دو پنسلیں مزید پکڑا کر پوچھا: ’’اب کتنی ہوئیں؟‘‘
’’چار!‘‘ بچے نے جواب دیا۔
ماسٹر صاحب نے ایک لمبی سانس لی جو اُن کے اطمینان اور سکون کی علامت تھی۔ پھر دوبارہ پوچھا: ’’اچھا اب بتاؤ! فرض کرو کہ مَیں نے پہلے تمھیں دو کبوتر دئیے پھر دو کبوتر دیے، تو کُل کتنے کبوتر ہوگئے؟‘‘
’’پانچ!‘‘ بچے نے فوراً جواب دیا۔
ماسٹر صاحب جو سوال کرنے کے بعد کرسی سیدھی کرکے بیٹھنے کی کوشش کر رہے تھے، اس زور سے بدکے کہ کرسی سمیت گرتے گرتے بچے۔ ’’اوئے خبیث! پنسلیں 2 اور 2 جب 4 ہوتی ہیں، تو کبوتر 2 اور 2 کیوں 5 ہوتے ہیں؟‘‘ اُنھوں نے رونے والی آواز میں پوچھا۔
’’ماسٹر جی ایک کبوتر میرے پاس پہلے سے ہی موجود ہے۔‘‘ بچے نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
بس پورے حالات جانے بغیر کوئی رائے مت قائم کیجیے۔ تصویر کے دونوں رُخ دیکھ کر ہی کوئی نتیجہ اخذ کیجیے۔
ایک چوبیس سال کا لڑکا چلتی ٹرین سے باہر دیکھ کر اونچی آواز میں چلاتا ہے: ’’دیکھو بابا! درخت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہم بہت تیزی سے آگے جارہے ہیں۔‘‘
باپ اُس کی طرف دیکھتا ہے اور خوش ہوکر مسکرا دیتا ہے۔
ایک نوجوان جوڑا بھی چوبیس سال کے لڑکے کے قریب بیٹھا ہوتا ہے، اور غور سے اُس کو دیکھتے ہوئے سوچ رہا ہوتا ہے کہ ’’اتنا بڑا ہوگیا ہے اور کتنی بچکانہ حرکتیں کررہا ہے۔شاید یہ کوئی ذہنی مریض ہے جو باپ کو پریشان کر رہا ہے۔‘‘
اچانک سے پھر لڑکا چلاتا ہے: ’’دیکھو بابا! بادل بھی ہمارے ساتھ ساتھ بھاگ رہے ہیں۔‘‘
آخرِکار اُس جوڑے سے رہا نہ گیا اور لڑکے کے باپ کو کہنے لگے: ’’آپ اپنے بیٹے کو کسی اچھے ماہرِ نفسیات کے پاس کیوں نہیں لے کر جاتے؟‘‘
بوڑھے آدمی نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’ہم ابھی ابھی ڈاکٹر کے پاس سے آرہے ہیں، لیکن ماہرِ نفسیات کے پاس سے نہیں۔ ہم ہسپتال سے واپس آرہے ہیں۔ میرا بیٹا پیدایشی اندھا تھا۔ اِس نے آج پہلی دفعہ دنیا کو اپنی نظر سے دیکھا ہے۔ آج 24 سال بعد اس کو اپنی نظر سے دنیا کو دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ اس کا یہ رویہ آپ کے نزدیک احمقانہ ضرور ہوگا، لیکن میرے لیے یہ کسی معجزہ سے کم نہیں۔‘‘
وہ جوڑا لڑکے کے باپ کے پاس آکر بہت سے اَن کہے الفاظ اور آنکھوں میں شرمندگی کے آنسو لیے ہوئے بیٹھ جاتا ہے اور اُن کی خوشی میں شامل ہوجاتا ہے۔
دنیا میں ہر انسان کی کوئی نہ کوئی کہانی ضرور ہوتی ہے، لیکن ہم بہت جلد لوگوں کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کرنا اور رائے دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ یہ نہ جانتے ہوئے کہ وہ کون ہیں اور ان کو کیا مسئلہ ہے؟ اس کہانی کا سچ بھی آپ کے لیے حیران کن ہے۔ دوسروں کے بارے میں ادھوری معلومات کی بنیاد پر رائے دینے کی بجائے اپنی زندگی پر توجہ دیں اور مثبت تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔