مولاناکوثر نیازی ایک عالم دین تھے اور جماعتِ اسلامی کے سرگرم کارکن تھے۔ پھر مولانا مودودی سے اختلاف ہوا، تو جو گروپ جس میں ڈاکٹر اسرار احمد، ارشاد احمد حقانی، عبدالقادر حسن وغیرہ شامل تھے، نے جماعتِ اسلامی کو چھوڑ دیا۔ تب مولانا اس گروپ کا حصہ تھے۔ پھر مولانا اچانک غیر متوقع طور پر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔
سید فیاض حسین گیلانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz/
مولانا کوثر نیازی پیپلز پارٹی کی جانب سے 1970ء کے انتخابات میں سیالکوٹ سے قومی اسمبلی کے امیدوار بنے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک دن اُنھیں معلوم ہوا کہ جنرل ٹکا خان کو وزیرِاعظم کا مشیر بنایا جا رہا ہے۔ وہ یہ سن کر بہت مایوس ہوئے۔ کیوں کہ مولانا کے مطابق سنہ 70ء کے انتخابات میں فوج مکمل جماعتِ اسلامی کی حمایت کر رہی تھی اور انتخابی مہم کے دوران میں جنرل ٹکا خان جو تب کور کمانڈر تھے، نے اُنھیں بلا کر نہایت ہی ہتک آمیز طریقے سے کہا تھا کہ ’’جوان! ہم تم لوگوں کو بھٹو سمیت جیتنے نہیں دیں گے۔ کیوں کہ ہم آیندہ جماعتِ اسلامی کو لانا چاہتے ہیں۔‘‘
مولانا نے ٹکا خان کے مشیر بننے پر بھٹو صاحب کو یہ واقعہ سنایا، مگر بھٹو صاحب نے جواب دیا: ’’مولانا! ان کے ساتھ معاملات کے لیے یہ ضروری ہے اور پھر دیکھ لو یہ جنرل کل کیسا رویہ رکھتا تھا اور آج کس طرح ہماری خوشامد کرتا ہے!‘‘
یعنی ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کا یہ اولین مظہر تھا۔ بہرحال ہم نے یہ واقعہ حال کے انتخابات کے نتائج کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ کیوں کہ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ 70ء کے انتخابات میں عوام نے نہ تو عوامی لیگ اور شیخ مجیب الرحمان کو ووٹ دیا تھا اور نہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی ہی کو…… بلکہ مذکورہ ووٹ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کے خلاف پڑا تھا۔
اسی طرح سنہ 1988ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا۔ اَب یہ جو تحریکِ انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے، اِس سے کئی گنا زیادہ پی پی سے زیادتی ہوئی تھی۔ اندازہ لگائیں کہ اس کے بانی کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ کئی کارکنوں کو سزائے موت ہوئی۔ لوگوں کو کوڑے مارے گئے۔ اُن کا مقبول انتخابی نشان ’’تلوار‘‘ اُن سے چھین لیا گیا۔ تمام دائیں بازوں کی طاقتوں کو ملا کر ’’اسلامی جمہوری اتحاد‘‘ کے نام پر چوں چوں کا مربہ بنایا گیا۔ تمام سرکاری میڈیا محترمہ کی کردار کشی کے لیے مختص کیا گیا۔ انتخابات میں دھاندلی کی انتہا کی گئی، مگر جب نتیجہ نکلا، تو ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی جیت گئی۔ یہ جیت محترمہ بینظیر بھٹو کی نہیں تھی، بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عوام کا اظہارِ لاتعلقی تھا۔
پھر اس سے ملتی جلتی تاریخ سنہ 2008ء میں دُہرائی گئی۔ نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو پر ریاستی شکنجہ کسا گیا۔ حتی کہ بی بی ایک درد ناک سانحے کا شکار ہوکر منوں مٹی تلے دب گئی، لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ اسٹیبلشمنٹ کی جماعت ق لیگ لیرو لیر ہوگئی، جب کہ ن لیگ اور پی پی حکم ران بن گئیں۔
اب حالیہ انتخابات میں بھی ووٹ عمران خان کو نہیں گیا…… بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف گیا ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ عمران خان کی جماعت اپنے دورِ اقتدار میں انتہائی غیر مقبول ہوگئی تھی اور تمام ضمنی انتخابات ہار رہی تھی…… لیکن جب عمران خان قوم کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگیا کہ اس کی حکومت اپوزیشن نے نہیں گرائی، بلکہ داخلی طاقت وروں نے عالمی اسٹیبلشمنٹ سے مل کر گرائی ہے، تو وہ مقبول ہونا شروع ہوگیا۔ پھر اگر بات یہاں تک رہتی، تو ممکن تھا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی جیسی تجربہ کار جماعتیں اس کا کوئی موثر توڑ کرلیتیں، لیکن اس کے بعد آپ نے جو کیا، وہ کسی بھی اخلاقی و قانونی دائرے میں قابلِ توجیح نہ تھا۔ خاص کر عدتِ نکاح کا کیس، توشہ خانہ کیس، بشری بی بی کی گرفتاری…… یہ سب کاؤنٹر پروڈکٹیو ہوا اور عوام عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ انتخابات میں بیلٹ میں دھاندلی نہ ہوگی، لیکن انتخابات سے قبل آپ نے تحریکِ انصاف کو سیاسی طور پر ختم کرنے کے لیے ہر حربہ اختیار کیا۔ اس کا انتخابی نشان اس سے چھین لیا۔ اس کے راہنما کو اڈیالہ ڈال دیا۔ اس کی سیکنڈ لائن کی تقریباً تمام قیادت کو یا جیل بھیج دیا، یا اُن سے پریس کانفرنسیں کروا کر اُن کو گھر بیٹھنے پر مجبور کیا اور کچھ کو دوسری جماعتوں میں شامل کروا دیا…… لیکن انتخابات والے دن عوام عمران خان کی حمایت میں نکلے اور انتخابی نشان نہ ہونے کے باجود اُس کے حمایت یافتہ اُمیدواروں کے نشانوں پر ٹھپے مارتے گئے۔
مَیں نے ایسے ڈھیر سارے پولنگ اسٹیشنوں کا سروے کیا، جہاں اُن کا نہ کوئی انتخابی کیمپ تھا اور نہ کوئی پولنگ ایجنٹ، لیکن وہاں پی ٹی آئی حیرت انگیز طور پر بہت زیادہ ووٹ لے گئی…… یعنی سادہ سی بات ہے کہ لوگوں نے نہ عمران خان کی محبت میں ووٹ دیا، نہ نواز شریف یا بلاول بھٹو کی نفرت میں، بلکہ عوام نے اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کے خلاف ووٹ دیا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
اندھی طاقت
بول زُباں اب تک تیری ہے
انتخابات قومی اُمنگوں کو زُباں عطا کرنے میں ناکام
کیا عمران خان دوسرے بھٹو بننے جا رہے ہیں؟
نواز شریف کو اس بار بھی اسٹیبلشمنٹ لے ڈوبی
اب یہاں پر بہت ہی سنجیدہ سوال ہے کہ آخر قوم اس حد تک اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کیوں جاتی ہے؟ بے شک یہ سوال ہم سب کے لیے قابلِ فکر ہے۔ کیوں کہ ہر ملک اور خاص کر پاکستان جیسے ملک کہ جو تقریباً چاروں اطراف سے سیکورٹی کے مسائل کا شکار ہے۔ ایک طرف بھارت اور دوسری طرف افغانستان سے پاکستان کے تعلقات نازک ہیں۔ اب سونے پر سہاگا یہ کہ ایران جیسے ملک سے بھی آپ کے معاملات بگڑ گئے ہیں۔ یہاں اسٹیبلشمنٹ (مطلب فوج) کو مکمل طور پر غیر متنازع ہونا چاہیے، لیکن ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ بے شک سیاست دانوں کی ڈھیر ساری نااہلیاں ہوں گی، لیکن ہمارے فوجی سربراہوں کو بھی سوچنا چاہیے تھا۔ ایوب خان نے اس عمل کی شروعات کی اور نہ صرف قابض ہوکر بیٹھ گیا، بلکہ اُس نے فوجی تربیت کے سلیبس کو تبدیل کر دیا۔ اَب فوج کا ایک عام جوان خود کو نہ صرف ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا وارث سمجھتا ہے، بلکہ جنرل شیر علی کی تخلیق ’’نظریاتی سرحدوں‘‘ کا بھی وارث سمجھتا ہے۔ اس غلط روش کو ضیاء الحق کے دور میں انتہا پر پہنچا دیا گیا۔ کیوں کہ ضیاء الحق ملک کے مقبول ترین سیاسی راہ نما کی حکومت کا تختہ اُلٹا کر آیا تھا۔ میرا نہیں خیال کہ اپنے 11 سالہ دورِ اقتدار میں عوام کی ایک فی صد تعداد میں بھی مقبول ہوا ہو۔ سو اُس نے فوج کے ادارے کو اپنا انتخابی حلقہ قرار دے کر نوجوان آفیسرز کی مکمل برین واشنگ کی۔ آپ آج بھی دیکھ لیں جو جوان سنہ 85ء میں لائنس نائیک کے طور پر ریٹارئر ہوا، اُس کے سامنے آپ ضیا یا مشرف پر بطورِ صدر یا چیف ایگزیکٹو تنقید کریں، وہ جذباتی ہو جائے گا۔ اسی وجہ سے عوام اور مسلح افواج میں دوریاں بڑھ رہی ہیں، بلکہ بڑھ چکی ہیں۔ پھر اس سوشل میڈیا کے دور میں پروپیگنڈا کرنا نسبتاً آسان ہے، اور یقینی طور پر کچھ حلقے مسلح افواج کی عوام میں خاص کر نوجوان نسل میں کم ہوتی مقبولیت کا فائدہ اُٹھا کر اس کو مزید گم راہ کرسکتے ہیں۔ اس لیے ہم اپنی اسٹیبلشمنٹ کو یہ مشورہ ضرور دیں گے کہ ماضی میں آپ نے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو ختم کرنے یا بدنام کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی، مگر یہ جماعتیں آج بھی نہ صرف اپنا وجود عوام میں رکھتی ہیں بلکہ کسی نہ کسی حد تک معروف بھی ہیں اور مقبول بھی۔ اسی طرح آپ جس طرح مرضی زور لگائیں، آپ انتظامی یا عدلیہ کی مدد سے نہ تحریکِ انصاف ختم کرسکتے ہیں اور نہ اس کو غیر مقبول ہی کرسکتے ہیں۔
بہرحال اسٹیبلشمنٹ اور تحریکِ انصاف میں دوریاں کسی بھی حد تک ہوں اور اس کی کچھ بھی جائز وجوہات ہوں، لیکن یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ ایسا ہوتا کیوں ہے؟
برسبیلِ تذکرہ، ایک دفعہ سابق وزیرِ اعظم محترم میاں محمد نواز شریف سے کسی صحافی نے سوال کیا کہ میاں صاحب آپ کی کسی بھی آرمی چیف سے کبھی کیوں نہ بنی؟ تو میاں صاحب نے بہت دلچسپ جواب دیا تھا کہ چلو میں ضدی یا نااہل ہی سہی، لیکن آپ مجھے بتائیں کہ کس وزیرِ اعظم کی پاکستان کی تاریخ میں اُن سے بنی ہے؟
یہ بات تاریخی طور پر درست ہے کہ آج تک کسی سول حکم ران کی اسٹیبلشمنٹ کی قیادت سے کبھی نہ بنی۔ سو شاید اب تاریخ کا جبر کَہ لیں یا سبق…… لیکن ہم اس موڑ پر آچکے ہیں کہ جہاں اَب ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اَب ملک میں اختیار و حکومت کس کا مطلوب ہے، اسٹیبلشمنٹ کا یا منتخب نمایندوں کا؟
تجربے نے تو یہی ثابت کیا ہے کہ جب تک حکومت و اختیار منتخب نمایندوں کے ہاتھ نہیں ہوگا، تب تک ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ البتہ اسٹیبلشمنٹ کا ایک متعین کردار ہوتا ہے سیکورٹی کے حوالے سے کہ جو کسی نہ کسی حد تک خارجہ امور سے بھی وابستہ ہوتا ہے۔ وہ تو رہے گا اور رہنا چاہیے…… لیکن دنیاوی طور پر فیصلے کا آخری اختیار بہرحال منتخب سول کے پاس ہی رہنا چاہیے۔
روایت میں آتا ہے کہ جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے جو اپنے دور کے ایک نہایت ہی ذہین اور کامیاب پالیسی میکر جنرل تھے اور مختلف جنگوں میں کامیاب سے کامیاب ترین تھے، کو عہدے سے برطرف کیا، تو بہت سے سمجھ دار لوگوں نے خلیفہ کے اس اقدام پر اعتراض کیا۔ اس کے جواب میں حضرت عمر نے تاریخی جملہ کہا کہ ہمیشہ ریاست وہی کامیاب ہوتی ہے، جہاں فوج پر سول حکومت کی بالادستی ہوتی ہے۔
اس لیے اب جہاں ہماری سیاسی قیادت کی ذمے داری ہے، وہاں ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بھی غور کرنا ہوگا کہ اُس نے بطورِ ایک ریاستی محکمے کے کام کرنا ہے یا سیاسی اُکھاڑ بچھاڑ کاحصہ بن کر عوام میں اپنی توقیر کو داؤ پر لگانا ہے!
المختصر بحیثیتِ ایک عام پاکستانی ہماری دلی خواہش ہے کہ پاکستان میں سول بالادستی ہو، مضبوط سیاسی حکومت ہو، جو عوام کو ریلیف دے جبکہ ہمارے دفاعی ادارے نہ صرف مضبوط تر ہوں بلکہ وہ عوام میں بالکل غیرمتنازعہ ہوں اور عام آدمی کے دل میں ان کی بے لوث عزت و آبرو ہو۔ بلکہ میرا خیال ہے کہ یہ خواہش محض ہماری نہیں بلکہ پاکستانی عوام کی اکثریت کی بھی یہی تمنا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
