گاڑی کا ایک پہیا سائیکل کا ہو، دوسرا ٹریکٹر کا، تیسرا کسی ٹرک اور چوتھا کسی رکشے کا، تو گاڑی کا چلنا مشکل ہے۔ ایسے میں جب راولپنڈی کے تگڑے کیل نے ایک پہیے کو پنکچر کردیا ہو، تو گاڑی کا چلنا تقریباً ناممکن ہو کر رہ جاتا ہے۔
رانا اعجاز حسین چوہان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rana/
اُمید کی جارہی تھی کہ الیکشن کے بعد ملک میں سیاسی استحکام آجائے گا، مگر ملک پہلے سے زیادہ مسائل میں گھر چکا ہے۔ اب جن حالات کا پاکستان کو سامنا ہے، وہ فکر مندی والے ہیں۔ تجزیوں اور تبصروں میں یہ بات آرہی ہے کہ فروری 2024ء میں ہونے والا الیکشن پچھلے تمام انتخابات سے زیادہ متنازع اور غیر شفاف ہے۔ بیرونی دنیا میں بھی اس کی شفافیت پر سوالات اُٹھائے جارہے ہیں اور اندرونِ ملک بھی ہر سیاسی جماعت چاہے وہ جیتی ہو یا ہاری ہو، یہ بات کَہ رہی ہے کہ ہماری نشستیں جو ہم فارم 45 کے مطابق جیت رہے تھے، وہ ہم سے چھین لی گئی ہیں۔
اب مرکز اور صوبوں میں حکومت سازی کے لیے کوششیں ہورہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ایک سمجھوتے کے تحت میاں نواز شریف کو لندن ہی میں پاکستان کا وزیرِ اعظم بنا دیا تھا۔ چناں چہ جب وہ لندن سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے، تو ہیتھرو ائیرپورٹ پر پاکستانی ہائی کمشنر نے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ اُنھیں رخصت کیا تھا۔ اسلام آباد پہنچنے پر بھی سرکاری افسران نے اُن کا استقبال کیا۔ پھر اُنھیں لاہور لے جایا گیا، جہاں اُنھوں نے مستقبل کے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے جلسے سے خطاب کیا۔
میاں صاحب نے یہ شرط رکھ دی تھی کہ وہ وزارتِ عظمیٰ اُس وقت تک نہیں سنبھالیں گے، جب تک اُنھیں نکالنے والے جرنیلوں اور ججوں کا احتساب نہیں کیا جاتا۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے پیٹی بند بھائیوں کے احتساب سے گھبرا گئی۔ اُس نے بڑے میاں صاحب کو چھوٹے میاں کے ذریعے پیغام بھیجا کہ فی الحال احتساب کی بات رہنے دیں۔ آپ پہلے وزارتِ عظمیٰ سنبھالیں، پھر دیکھی جائے گی۔
دیگر متعلقہ مضامین:
نظریاتی نواز شریف؟ 
کیا نواز شریف نے دیر کر دی؟ 
کیا نواز شریف کی رہائی ڈیل ہے؟ 
محلاتی سازشوں کا شکار نواز شریف  
مسلم لیگ (ن)، اِک جائزہ 
اسٹیبلشمنٹ تو اُنھیں لندن سے وزیرِ اعظم بنا کر لائی تھی، لیکن یہاں گیم ایسی پلٹی کہ خود اسٹیبلشمنٹ بھی دیکھتی رہ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ خود میاں نواز شریف نے وزیرِ اعظم بننے سے انکار کردیا۔ ایک تو شکست کا غم، دوسرے تین چوتھائی اکثریت حاصل کرنے کا خواب…… جو بکھر کر رہ گیا۔
میاں صاحب پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت میں بھی وزیرِاعظم نہیں بننا چاہتے تھے۔ اس لیے پیچھے ہٹ گئے اور چھوٹے بھائی کو آگے کردیا۔ اس طرح دیکھا جائے، تو ایک طرح سے شہباز شریف کی لاٹری نکل آئی ہے۔
بلاول بھی وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار تھے، لیکن وہ اس لیے پیچھے ہٹ گئے ہیں کہ اُن کے والد ایک بار پھر صدر بننے کی ضد کررہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ دونوں بڑے عہدے ایک ہی خاندان کو نہیں دینا چاہتی۔
ماضی میں مولانا فضل الرحمان جوڑ توڑ کے اس کھیل کے اہم شراکت دار رہے ہیں، لیکن اب کی دفعہ اُنھیں اس کھیل سے نکال دیا گیا ہے۔ میاں نواز شریف نے اُن سے صدارت کا وعدہ کر رکھا تھا، یہ وعدہ بھی بھلا دیا گیا ہے۔
میاں صاحب سے کیا گلہ کہ وہ خود بھی اس کھیل سے آؤٹ ہوچکے ہیں۔ چناں چہ اب مولانا فضل الرحمان نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے اور میاں نواز شریف کو بھی مشورہ دیا ہے کہ وہ بھی اُن کے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھیں، لیکن میاں صاحب اپوزیشن میں بیٹھنے کے لیے تو لندن سے نہیں آئے۔
اس کھیل میں سارا قصور اسٹیبلشمنٹ کا ہے، جو میاں نواز شریف کو تمام تر دھاندلی کے باوجود تین چوتھائی اکثریت دلانے میں ناکام رہی اور اُنھیں صرف پنجاب میں مریم کی وزارتِ عالیہ پر گزارا کرنا پڑ رہا ہے۔
ممکن ہے اس صورتِ حال سے دل برداشتہ ہو کر وہ واپس لندن چلے جائیں، لیکن وہ اپوزیشن میں ہرگز نہیں بیٹھیں گے۔
مولانا فضل الرحمان کو پی ٹی آئی کے ساتھ ہی گزارا کرنا پڑے گا۔ اصل کھیل تو اُس وقت شروع ہوگا، جب قومی اسمبلی کا افتتاحی اجلاس ہوگا اور پتا چلے گا کہ کون کہاں کھڑا ہے؟
اسٹیبلشمنٹ ایک مرتبہ پھر اپنا کرتب دکھائے گی اور پی ٹی آئی اپنے آزاد ارکان کو ڈھونڈتی رہ جائے گی…… لیکن اس سب کے باوجود بھی گاڑی چلتی نظر نہیں آرہی۔
الیکشن سے پہلے مختلف تجزیہ کاروں کی جانب سے کہا جاتا رہا کہ اگر الیکشن ہوگیا، تو اس کے نتیجے میں بننے والی نئی حکومت سال ڈیڑھ سال سے زیادہ نہیں چل سکے گی۔
سرِ دست جو صورتِ حال بن رہی ہے، وہ یہ ہے کہ ساجھے کی ہنڈیاں بیچ چوراہے پھوٹ سکتی ہے۔ اس صورت میں سب سے زیادہ نقصان جمہوریت اور عوام کا ہوگا۔
یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں بشمول مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف کے رہنما مل کر بیٹھیں اور اپنے اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار کی بندر بانٹ کی بجائے پاکستان کا سوچیں۔ حالات کو مزید خراب نہ ہونے دیں۔ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کریں۔ نفرت، دشمنی، انتقام اور بدلے کی سیاست کو ختم کرکے ملک میں حقیقی جمہوریت کے فروغ کے لیے اپنی کوششیں اور کاوشیں بروئے کار لائیں۔
رہے نام اللہ کا!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔