پچھلے 76 سالوں سے جس روایت کی بنیاد رکھی گئی تھی، وہ روز بہ روز مضبوط سے مضبوط تر ہو تی جا رہی ہے۔ اس کی دیواریں اینٹ اور گارے کی بجائے انسانی خون پر استوار ہو رہی ہیں۔ ہر وہ سر جو حکم عدولی کی جرات کرتا ہے، اُسے کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے اور یہی اِس روایت کا نقطۂ ماسکہ ہے۔ کتنے ذہین دماغ اس حکم عدولی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، لیکن پھر بھی سر کاٹنے کا نشہ کم نہیں ہو رہا۔
سروں کے کاٹنے کا کوئی مو سم نہیں ہوتا
کل ہی تو کاٹی تھی سروں کی فصل اس نے
ڈھیر سارے نابغہ ضد اور ہٹ دھرمی کی نذر ہوگئے، لیکن پیاس ہے کہ مٹنے کا نام نہیں لے رہی۔ یہ سچ ہے کہ طاقت اندھی ہوتی ہے اور کم زور ں اور نہتوں کو ملیا میٹ کرنے میں اسے ایک انجانی خو شی کا احساس ہوتا ہے۔ لہٰذا طاقت کا ہاتھ کم زوروں پر یوں چلتا ہے، جیسے آسمان سے بادل برستا ہے۔ مخالفین پر الزامات لگانا، اُنھیں پسِ زِندان پھینکنا، اُنھیں قصور وار ثابت کرنا طالع آزماؤں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو تا ہے، لیکن سچے جمہوریت پسندوں کی نظر میں ایسے تمام اقدامات کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ وہ انسانی آزادیوں، انصاف، قانون، آئین اور عدل و صداقت پر اپنی زندگیوں کو نچھاور کرنا اپنے لیے اعزاز تصور کرتے ہیں۔ ساؤتھ افریقہ میں نیلسن منڈیلا اور اُن کے ساتھیوں کو جس طرح قید و بند میں رکھا گیا، تاریخ کے اوراق اُس پر گواہ ہیں۔انصاف پسندوں کی طویل جد و جہد کے سامنے طا لع آزمائی کو سر نگوں ہونا پڑا۔ کیوں کہ ظلم و جبر کو آخر میں سرنگوں ہی ہونا پڑتا ہے۔ سحر کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ اندھیرے کا مقدر مٹ جانا ہوتا ہے اور انسانی عظمت کی رو پہلی کرنوں سے دھرتی کا جگمگانا اَٹل ہوتا ہے۔
طارق حسین بٹ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/butt/
شاہِ ایران رضا شاہ پہلوی کی اندھی طاقت امام خمینی اور اس کے فدائین کی جمہوری جد و جہد کو روک نہ پائی۔ امام خمینی کی ایران میں مراجعت شاہِ ایران کی شہنشائیت کی موت ثابت ہوئی اور رضا شاہ پہلوی کو اپنے لعل و جواہر کے ڈھیر اور جاہ و جلال کو الوداع کَہ کر جلا وطن ہو نا پڑا۔ ساری دنیا کے خزانوں کا مالک ایک درویش صفت انسان کی صداقت سے شکست کھا گیا۔ علامہ اقبال اس منظر کو جو 1989ء میں وقوع پذیر ہوا تھا، اُسے اپنی کتاب زبورِ عجم میں 1930ء میں احاطۂ تحریر میں لائے تھے۔ علامہ اقبال کا کہنا تھا کہ ایک درویش آئے گا اور تمھارے تاج و تحت کو ہوا میں اُچھال دے گا۔ تمھاری ساری شان و شوکت دھری کی دھری رہ جائے گی۔ تمھارا تاج و تحت تنکوں کی طرح بکھر کر رہ جائے گا۔ ایسا ہوگا اور ضرور ہوگا۔ کیوں کہ مَیں نے اُس درویش کا روشن چہرہ تمھارے زِنداں میں لگے ہوئے روشن داں سے دیکھ لیا ہے:
دیدہ ام از روزنِ دیوارِ زندانِ شما
قیدیں اور اذیتیں بزدلوں کے لیے ہوتی ہیں۔ بہادر ان سے کبھی خائف ہو ئے ہیں اور نہ کبھی ہو ں گے۔ بہادروں کی جانوں کا خراج ہی تو ہماری آزادی کا دل کش ترانہ بنتا ہے۔ بہادروں کی قربانیاں نہ ہوں، تو اس دھرتی پر جمہوریت، آزادی، انصاف، عدل اور صداقت کا نام و مشان مٹ جائے۔ اُن کا لہو ہی در حقیقت ا س کرۂ ارض پر آ زادیوں کی ضمانت بنتا ہے۔
دولت، جاہ و جلال، اقتدار در اصل وہ سیڑھی ہیں جوظلم و جبر کو ہوا دیتی ہیں اور مجبو رو بے کس لوگوں کو آمریت کے شکنجوں میں کس دیتی ہیں۔بے گناہوں کی چیخیں کرۂ ارض پر انصاف پسند دلوں میں مدو جزر پیدا کرتی ہیں اور وہ اندھی قوت کے سامنے سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔
وقت تو کڑا اور جان لیوا ہو تا ہے، لیکن بڑے مقصد کے حصول کی خاطر قربانی بھی بڑی ہی دینا پڑتی ہے…… اور دنیا کی کوئی قربانی جان سے زیادہ قیمتی نہیں ہوتی۔ کڑی سے کڑی ملے، تو زنجیر بنتی ہے۔ شمع سے شمع جلے، تو روشنی ہوتی ہے۔یہ الگ بات کہ آزادی کی شمع صرف لہو سے ہی روشن ہو تی ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
جنرل ضیا کے پاکستانی سیاست پر اثرات  
پی ٹی آئی بارے سپریم کورٹ تفصیلی فیصلے کے 20 نِکات 
بول زباں اب تک تیری ہے 
بلے سے محرومی کے اثرات  
الیکشن ایکٹ 2017، جرائم اور سزائیں  
ہمارے ملک میں طالع آزمائی کی روایت بہت پرانی ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی طالع آزماؤں کے اشاروں پر ناچتی ہیں۔ کیوں کہ اقتدار کا حصول اُن کا مطمعِ نظر ہو تا ہے۔ اُنھیں انسانی حرمت، آزادی اور انصا ف سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ وہ دولت کی طاقت سے عوام کو اپنی جانب راغب کرتی ہیں اور پھر اُن کا ایسا بھیانک استحصال کیا جاتا ہے کہ اُن کے مقدر میں بھوک اور ننگ کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ دولت کی چکا چوند اُن کی کم زوری ٹھہرتی ہے…… اور وہ اس چکا چوند کی خاطر قومی خزانے کو لوٹنے سے دریغ نہیں کرتے۔
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
دولت کی ہوس معاشرے میں ناہم واریوں کو جنم دیتی ہے اور معاشرہ عدمِ توازن کا شکار ہوجاتا ہے اور ملکی قوانین میں استثنائی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ ایک طرف متمول گھرانے ہوتے ہیں جب کہ دوسری طرف مفلوک الحال افراد جن کی قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ امیرکے لیے قانون علاحدہ ہوتا ہے، جب کہ غریب کے لیے علاحدہ۔ ہماری نگاہیں روز ایسے مناظر کا نظا رہ کرتی ہیں جس میں امرا کے سامنے قانون بھی بے بس ہوجاتا ہے۔ غریب روتا رہتا ہے، تکلیف سے بلکتا رہتا ہے، حق اور انصاف کے لیے تڑپتا رہتا ہے، لیکن اُس کے لیے قانون حرکت میں نہیں آتا۔ کیوں کہ بے حد و بے حسا ب دولت کے حاملین کی نظر میں اُن کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ اُنھیں دھتکار دیا جاتا ہے اور کسی اَچھوت کی طرح اُن کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
ترقی یافتہ اقوام میں بھی تمام طبقات کا وجود ہو تا ہے، لیکن وہاں پر قانون کی نظر میں سب برابر ہو تے ہیں۔کسی کو کوئی استثنا حاصل نہیں ہوتا۔ وہاں دولت کی نہیں بلکہ قانون کی حکم رانی کا چلن ہو تا ہے۔ صدر اور وزیرِ اعظم بھی عام شہریوں کی طرح قانون کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ بابائے قوم محمد علی جناح قانون کی حکم رانی کی زندہ مثال تھے۔ ریلوے پھاٹک کا واقعہ ہماری تاریخ کا وہ درخشاں باب ہے، جس میں قائدِ اعظم محمد علی جناح نے ریلوے پھاٹک کو بند دیکھ کر اپنی گاڑی روک لی تھی اور ریاستی عہدے کا ناجائز فائدہ اُٹھانے کی بجائے اپنی گاڑی ہی میں عام شہریوں کی طرح ٹرین کے گزرنے کا ا نتظار کیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر میں آئین و قانون کا احترام نہیں کروں گا، توپھر میں اپنی قوم سے آئین و قانون کی عمل داری کی توقع کیسے رکھ سکتا ہوں؟ قانون کی پاس داری اور حکم رانی کے لیے پہلے مجھے خود مثال بننا ہے۔
یہ تو تھا ایک جمہوریت پسند عظیم رہنما کا اندازِ فکر لیکن وہ جو بندوق کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں، اُن کی نظر میں آئین کاغذ کا ایک ایسا پرزہ ہے جسے کسی بھی وقت پھاڑا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں ساری مارشل لائی حکومتیں اسی سوچ کی عکاس رہی ہیں۔ عوامی ووٹوں سے منتخب وزیرِ اعظم جیل کی کال کوٹھری میں اپنے شب و روز گزارتا ہے اور ایک دن اُسے موت کی وادی میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ جَلا وطنی، جیل، ایذائیں، سزائیں، آزمایشیں اور سختیاں جھیلتے جھیلتے منتخب وزیرِ اعظم کی زندگی کا چراغ گل ہوجاتا ہے اور طالع آزما اقتدار کے مزے لیتے رہتے ہیں۔ اقتدار ایک ایسی اندھی قوت کا نام ہے جس میں طالع آزماؤں کو کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ وہ ایک ایسا سیاہ چشمہ پہن لیتے ہیں جس میں جمہور کا کوئی وجود نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایسے کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں جنھیں کسی بھی وقت بوٹوں تلے کچلا جاسکتا ہے۔ ہمارا ملک تو پہلے ہی ڈیفالٹ کر چکا ہے، معیشت تباہ و برباد ہوچکی ہے، ملکی خزانہ اغیار کے رحم و کرم پر ہے، بے روزگاری اور مہنگائی ناقابلِ برداشت حدوں کو چھو رہی ہے، لوٹ مار کا کلچر ہماری شناخت بن چکا ہے، نوجوان بے روزگاری کے ہاتھوں ملک چھوڑ کر بیرونِ ملک جانے کو ترجیح دے رہے ہیں، ایسے میں چند امیر خاندان طالع آزماؤں کے ساتھ مل کر جمہور کی آواز کو دبانے کی سازش کا حصہ بن رہے ہیں جس سے ملکی وحدت پارہ پارہ ہو رہی ہے۔ہمیں ہوش کے ناخن لینا ہوں گے کہ ملکی سلامتی پر آنچ نہ آئے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔