تحریر: علی ہلال
ہم ازلی بدبخت اور من حیث القوم بدنصیب واقع ہوئے ہیں۔
سوات شانگلہ سے تعلق رکھنے والی ملالہ یوسف زئی کو اپنے ٹیلنٹیڈ والد ضیاء الدین کی محنت اور قسمت کی دیوی کی مہربانی سے جو عالم گیر شہرت ملی، وہ بہت کم انسانوں کے حصے میں آتی ہے۔ جانے کتنی نرگسوں نے اس مقام تک پہنچنے کے لیے رویا ہوگا…… مگر اُن کی شنوائی نہ ہوئی۔
آج کل پاکستان کا ہر نوجوان یورپ جانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ ملالہ کو برطانیہ میں ’’آکسفورڈ‘‘ تک کے اعلا تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ عالمی راہ نماؤں سے ملنے کا اعزاز اور عالمی میڈیا کی ہم دردی نصیب ہوئی…… مگر افسوس بد نصیب ملالہ پر آخر میں جاکر انکشاف ہوگیا کہ اُس کے اندر تو ’’ماہرِ تعلیم‘‘ کی نہیں بلکہ ایک ’’اداکارہ‘‘ کی صلاحیتیں چھپی ہوئی ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
اب کی بار ملالہ کو لعن طعن کی تُک نہیں بنتی  
حامد میر غدار ہے، نہ ملالہ کافر  
ملالہ خود مسئلہ ہے یا اُس کا بیان……….؟ 
ملالہ یوسف زئی اور مبالغے مغالطے  
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملالہ ایک بین الاقوامی لیول کی ماہرِ تعلیم بنتیں۔ وہ اقوامِ متحدہ اور اس جیسے عالمی اداروں کے پلیٹ فارم کے تعاون سے پاکستان بالخصوص متاثرہ علاقوں میں آسان تعلیم کا جال بچھاتیں۔ اچھا ہوتا کہ وہ عالمی سیاست میں قدم رکھتیں…… لیکن افسوس ’’ویر میرا گھوڑی چڑیا‘‘ کے مصداق ملالہ نے گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہوکر اداکاری کے میدان میں اپنے جوہر دکھانے کا فیصلہ کرلیا۔
سوال یہ ہے کہ یہ کام اگر کرنا تھا، تو سوات کے بنڑ محلہ میں آسانی کے ساتھ کیوں نہیں کیا؟ جہاں سے بڑی بڑی گلوکارائیں نکلی ہیں اور بڑی دولت و شہرت کماچکی ہیں۔ وہ بھی بنڑ میں کسی استاد کی خدمت میں بیٹھ جاتی ۔
یہ حال صرف ایک ملالہ کا نہیں۔ خیبر پختونخوا اور افغانستان سے تعلق رکھنے والی سیکڑوں تعلیم یافتہ لڑکیاں بیرونِ ملک جانے کے باوجود کسی ہنر پر توجہ دینے کے بہ جائے ’’ٹک ٹاکر‘‘ بن کر گالم گلوچ اور نچلی حرکتوں میں وقت ضائع کررہی ہیں، جب کہ دوسری اقوام کی دوشیزائیں کمپیوٹر، انجینئرنگ اور ایجوکیشن میں نام کمانے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہی فرق ہے کہ اُن کے ہاں لڑکیوں میں ’’ارفع کریم‘‘، ’’منیبہ بلوچ‘‘ اور ’’مدیحہ لودھی‘‘ پیدا ہوتی ہیں اور خیبر میں ’’زرسانگہ‘‘ اور ’’گلنار بیگم‘‘ اور مردوں میں ’’جہانگیر خان‘‘ اور ’’سواتے‘‘ جیسے کردار بن کر آخر میں بھوک سے مرجاتے ہیں۔
یہ سب قومی تربیت اور معاشرتی مزاج کا اثر ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔