سات برسوں کے غور و فکر اور بحث و مباحثے کے بعد آخرِکار پاکستان نے اپنی ’’پہلی قومی سلامتی پالیسی‘‘ کا اعلان کر دیا ہے۔
قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کو سیاسی لیڈر شپ اور عسکری احکام کی مکمل تائید اور حمایت حاصل ہے۔ بالفاظ دیگر منتخب حکومت اور ادارے سب ایک پیج پر ہیں۔ سات دہائیوں کے بعد حکومتِ پاکستان نے جامع سکیورٹی پالیسی کا اعلان کیا جس میں معاشی خوشحالی اور خود انحصاری کو ترجیحِ اوّل قرار دیا گیا ہے…… نہ کہ ’’جیو اسٹرٹیجک پالیٹکس‘‘ کو۔
سادہ الفاظ میں اس کا مطلب ہے کہ پاکستان خطے میں ترقی، خوشحالی، علاقائی روابط کو مضبوط بنانے کے لیے اپنے وسائل اور توانائی صرف کرے گا۔ نتیجتاً خطے کے ممالک کے مابین تجارتی اور کار و باری روابط کو فروغ ملے گا۔ ریلوے اور سٹرکوں کا جال بچھایا جائے گا…… جو محض پاکستان اور چین تک محدود نہیں رہے گا بلکہ ایران، ترکی اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو بھی اس نیٹ ورک میں شامل کیا جائے گا۔ اگرچہ افغانستان علاقائی تجارت کی ایک اہم گزرگاہ ہے…… لیکن فی الحال وہاں حالات سازگار نہیں، تاہم اطمینان بخش بات یہ ہے کہ طالبان کی حکومت میں کم ازکم پاکستان مخالف عناصر افغان سرزمین دیدہ دلیری کے ساتھ استعمال نہ کرسکیں گے۔
نیشنل سکیورٹی ایک ہمہ جہتی تصور ہے۔ یہ محض سرحدوں کی حفاظت کے بندوبست کا نام نہیں۔ اس میں شہریوں کی صحت، تعلیم، صاف پانی اور خوراک کی فراہمی کا انتظام بھی شامل ہے۔ پاکستان جس طرح کے معاشی مسائل سے گذشتہ کئی دہائیوں سے دوچار ہے، وہ بھی تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستانی لیڈرشپ تمام تر توجہ ملک کی معاشی صورتِ حال کو بہتر بنانے پر صرف کرے۔ گذشتہ حکومت کی معاشی پالیسی کو اگر چند الفاظ میں بیان کرنا ہو، تو بے بدل شاعر غالب کا ایک شعر مستعار لیا جاسکتا ہے:
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
پاکستان ایک زرعی ملک ہے…… لیکن اس کے باوجود گندم، چینی، آئل، زیتون اور بے شمار دیگر اجناس اسے درآمد کرنا پڑتی ہیں۔ کیوں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ان کی پیداوار پر کوئی توجہ نہیں دی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان سالانہ محض پام آئل کی درآمد پر چار ارب ڈالر خرچ کرتا ہے۔ تھوڑی سی کوشش سے پاکستان نے زیتون کی پیداوار میں قابلِ قدر کامیابی حاصل کی ہے۔ ہزاروں ایکڑ رقبے پر زیتون کے کروڑوں درخت لگائے گئے ہیں۔
پاکستان میں حکومت اور اس کے ذیلی اداروں نے جب بھی کسی شعبہ کو ترجیح بنایا، تو اس میں ہمیں بھرپور کامیابی عطا ہوئی۔ بدقسمتی سے روزِ اوّل ہی سے پاکستان کی حکومتوں نے بیرونی قرض کی بنیاد پر سالانہ میزانیہ مرتب کیا۔ وسائل کی ضرورت پڑتی، تو ملکی یا عالمی مالیاتی ادارے کے سامنے ہاتھ پھیلایا جاتا، یا پھر دوست ممالک سے درخوست کرکے وقتی ضرورت پوری کرلی جاتی، لیکن طویل المیعاد منصوبہ بندی اور پھر تسلسل کے ساتھ اس پر عمل درآمد پر توجہ نہ دی گئی…… جس کی بدولت نہ صرف معیشت کم زور ہوئی…… لیکن اب حالت یہ ہے کہ دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی قرض اٹھانا پڑ رہا ہے۔
ماضی کی حکومتیں نے وسائل کا رُخ تعلیم اور صحت کی طرف موڑنے کی بجائے انفرا سٹرکچر یا حکمرانوں اور سرکاری حکام کی عیش کے لیے عشرت کدے آباد کرنے پر لگا دیے۔ عام شہری کو ہنر مند بنانے، ان کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور پیداواری ذرایع آمدن تک شہریوں کی یکساں رسائی کو ممکن بنانے پر کوئی توجہ نہ دی۔
23 سال پہلے پاکستان ایٹمی قوت بنا جو کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اسے جوہری قوت بننے سے نہ روک سکیں۔ عالم یہ ہے کہ لگ بھگ 40 فیصد آبادی یعنی آٹھ کروڑ کے قریب خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔جو کسر رہ گئی تھی، وہ کرونا کی مہلک وبا نے پوری کردی۔ ایک عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق پاکستان کی 80 فیصد غریب آبادی دیہاتوں میں بستی ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کو اوپر اٹھانے کے لیے متعدد اقدامات کیے لیکن کرونا کی وجہ سے پوری دنیا میں کساد بازاری کا ایک طوفان آیا۔ چناں چہ مہنگائی کے سیلاب میں سرکار کے مثبت اقدامات بھی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ افراطِ زر کے باعث اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں پوری دنیا میں ہوش رُبا اضافہ ہوا جس نے غریب طبقے کے علاوہ متوسط طبقے کو بھی بری طرح کنگال کیا۔
گذشتہ دو برسوں سے وزیرِ اعظم عمران خان اور عسکری احکام مسلسل اس خطے میں سیاسی، سفارتی اور مواصلاتی روابط بڑھانے اور علاقائی تجارت کے فروغ کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کو علاقائی اور عالمی تنازعات میں الجھانے سے بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے وِژن پیش کیا ہے کہ پاکستان تنازعات کا حصہ بننے کی بجائے قطر کی طرح تنازعات کے حل میں شراکت دار بنے گا۔
لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے بعد وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت نے کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں تیز کردی ہیں۔ بھارتی مسلمان تو مسلمان اب نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق عیسائی بھی ہندو انتہا پسندوں سے محفوظ نہیں۔ اس پس منظر میں پاکستان کو اپنے وسائل کا بہت بڑا حصہ محض اس لیے دفاع پر صرف کرنا پڑتا ہے کہ اس کی سرحدوں پر بھارت کی فوج کھڑی ہے جو جدید ترین اسلحہ سے لیس ہے۔
نئی قومی سلامتی پالیسی کا اجرا ایک مثبت پیش رفت ہے۔ کم از کم پاکستان کے تمام ادارے ایک دوسرے کی راہ کھوٹی کرنے کی بجائے اب اتفاقِ رائے سے معاشی استحکام کے لیے کام کرسکیں گے۔
…………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔