جب سے بھارت میں مسکان کا واقعہ ہوا ہے، ہمارے کچھ جنونی ذہنی مریض اور حقیقت میں حسد اور جلن میں مارے دماغ غیر ضروری طور پر اس میں ملالہ یوسف زئی کو شامل کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان دونوں بہادر بچیوں کی تصاویر کو لگا کر مسکان کو خراجِ تحسین اور ملالہ بارے برے الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔ ہم نے اپنے گذشتہ کالم میں مسکان کو مکمل خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ مسکان کو صرف مسلمان کَہ کر محدود نہ کیا جائے…… بلکہ مسکان تمام عالمِ انسانیت کی نمایندہ بن کر انسان دشمنوں کے آگے ڈٹ کر کھڑی ہوئی ہے۔ آج دنیا بھر کے روشن خیال انسانیت دوست اور باشعور انسان، خواہ ان کا تعلق کسی معاشرے، کسی مذہب سے ہو، مسکان کو سلام پیش کر رہے ہیں…… لیکن ہمارے ہاں ایک ذہنی بیمار طبقہ ہے جو غیر ضروری طور پر اپنی ایک ایسی بیٹی کہ جس نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے، کو مسکان کے مقابل لاکر اس معصوم کو ذلیل کر رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسکان نے بہت دلیری اور جرات سے شدت پسند ذہنیت کو للکارا ہے…… اور بہت اعتماد سے اپنے اندر کی شیرنی کو ظاہر کیا ہے۔ اس پر مسکان کو ایک دفعہ پھر ہمارا بلکہ پورے عالمِ انسانیت کی طرف سے سلام……! مگر مسکان کا ملالہ سے موازنہ کیوں کیا جا رہا ہے…… یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بے شک مسکان نے بہت دلیری اور وقار کے ساتھ شیو سینا کی طلبہ تنظیم کے غنڈوں کا سامنا کیا، لیکن ملالہ یوسف زئی نے مسکان سے کہیں درجہ زیادہ جرات اور دلیری کا مظاہرہ کیا تھا۔ کاش! لوگ خواہ مخواہ اس معصوم بچی سے حسد کرنے کی بجائے اس بارے جاننے کی کوشش کریں۔
ملالہ نے گل مکئی کے نام سے اُس وقت اُردو میں بی بی سی کی ویب سایٹ پر ان انسانیت کش درندوں بارے لکھنا شروع کیا تھا جب بڑے بڑے سورماؤں کا ان درندوں کا نام لینے سے بھی پتا پانی ہوجاتا تھا۔ اس معصوم بچی نے عین ان کے مرکز میں بیٹھ کر ان کے خلاف لکھنا شروع کیا۔ کسی کو معلوم بھی نہ تھا، لیکن جب ان ظالمان کے خلاف کامیاب آپریشن ہوا اور فضا ذرا بہتر ہوئی، تو تب خیبر پختون خوا کے اے این پی کے وزیراعلا امیر حیدر خان ہوتی صاحب نے مرکزی حکومت کو ملالہ کی جرات پر ایوارڈ دینے کی سفارش کی۔ اس تجویز پر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ملالہ کو ایوارڈ دینے کا اعلان کیا۔ تب کہیں جا کر دنیا کو اس کم سن بچی بارے معلوم ہوا۔ پھر ظالمان نے اس معصوم بچی کو ٹارگٹ کرکے گولی ماری…… لیکن مارنے سے بچانے والا بڑا ہوتا ہے۔ سو ملالہ کو خدا نے بچا لیا۔ سب سے پہلے ملالہ کو آرمی نے پشاور اور پھر راولپنڈی سی ایم ایچ منتقل کیا۔ اس کے بعد آرمی میڈیکل کی ٹیم کی تجویز پر ملالہ کو لندن کے ایک ہسپتال منتقل کیا گیا…… جہاں اس کا مکمل علاج کیا گیا۔
جب ملالہ کو براہِ راست گولی ماری گئی اور ظالمان نے اس کی ذمہ داری باقاعدہ طور پر قبول کرلی، تو ظاہر ہے بین الاقوامی میڈیا اس کی طرف متوجہ ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملالہ ایک انٹرنیشنل شخصیت بن گئی اور جب اس بارے بڑے بڑے ٹی وی چینل اور اخبارات نے خبریں لگائیں، تو منطقی طور پر بین الاقوامی این جی اُوز اور حکومتوں کو اس میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ یوں ملالہ پر ایوارڈز اور انعامات کی بارش شروع ہوگئی۔ بس بین الاقوامی سطح کا یہ اعتراف اور انعامات ہی ملالہ کو ایک بیمار دماغ کے آگے متنازعہ بنا گیا۔ یہ بیمار دماغ، حسد سے جلتا رہا اور ملالہ کو امریکہ اور اسرائیل کا ایجنٹ بناتا گیا۔ اس کا ثبوت ان کے پاس بس یہی تھا کہ اس کو امن کا نوبل انعام کیوں ملا؟ امریکہ، کینیڈا یا برطانیہ کی حکومتیں اس کو پروٹو کول کیوں دیتی ہیں؟ مغربی ممالک کی پارلیمنٹیں اس کو کیوں بلاتی ہیں؟ ان کے نزدیک بس یہی ثبوت اور دلیل ہے کہ ملالہ یہود و ہنود کی ایجنٹ ہے۔
اب سالوں بعد جب یہ مسکان والا واقعہ ہوا، تو یہ بیمار دماغ پھر میدان میں آگیا۔ اس آڑ میں یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ اسلام کی اصل ہیرو ’’مسکان‘‘ ہے…… جب کہ ملالہ اسلام دشمن ہے۔ خدا کے بندوں اگر تم مسکان کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتے ہو، تو ضرور کرو……لیکن اس بنیاد پر ملالہ پر دشنام طرازی کیوں کر رہے ہو؟
یہاں مذکورہ لوگوں کا ایک عجیب و غریب بیانیہ ہے کہ اب مغرب مسکان کو بھی اس طرح سہولیات کیوں نہیں دیتا…… جس طرح کی سہولیات ملالہ کو ملیں۔ اول تو اس احساسِ کمتری کے شکار دماغ کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ مغرب سے ہمیشہ ایسی توقع کیوں کرتے ہیں؟
دوسرا نکتہ، یہ بات بالکل صحیح نہیں کہ مسکان کے ایکشن کو مغرب نے بحیثیتِ مجموعی سراہا نہ ہو…… لیکن ظاہر ہے کہ ملالہ کا واقعہ تو مسکان کے واقعے سے یک سر مختلف ہے۔ ملالہ نے باقاعدہ ظالمان کے خلاف جنگ لڑی…… جب کہ مسکان کا واقعہ بالکل اتفاقی اور معمولی ہے ملالہ کے مقابلے میں۔ پھر ان احمقوں کو یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ مسکان کے واقعہ میں اول نشانہ ’’حجاب‘‘ ہے۔ گو کہ شیو سینا کے غنڈوں نے جو طریقہ اختیار کیا…… مغرب اس طریقۂ کار کے خلاف ہے…… لیکن بحیثیتِ مجموعی مغرب نظریاتی طور پر اکثریت میں حجاب کا حمایتی نہیں…… جب کہ ملالہ اور مغرب کا دشمن ایک تھا۔
قارئین، مَیں نے کہیں پہلے بھی یہ لکھا تھا کہ چیزوں کو دیکھنے کا انداز ہر ایک کے لیے ثقافتی اقدار، دینی عقاید، تاریخی حالات اور سب سے بڑھ کر معاشرتی رویوں سے منسلک ہوتا ہے۔ اس پر میں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے حوالے سے ایک واقعہ لکھا تھا کہ محترمہ جب سنہ 86ء میں واپس آئیں…… تو ان کے خلاف ایک شدید پروپیگنڈا کیا گیا کہ جس کی بنیاد یہ تھی کہ بی بی مغرب کی پسندیدہ ہے۔ گویا وہ پاکستان کے خلاف ہیں، اسلام کے خلاف ہیں اور مغرب کی ترجمان……! جب اس بارے مَیں نے ناروے کے ایک صحافی سے بات کی، تو اس نے بہت دلچسپ بات بیان کی۔ اس نے کہا کہ دوست ممکن ہے کہ مغربی حکومتیں کسی نہ کسی حوالے سے اپنے مفادات کے تحت ملوث ہوں…… لیکن مغرب اپنے عوام کی اکثریت کے جذبات کو ہمیشہ ترجیح دیتا ہے۔ اب تمھارے ہاں چوں کہ ایک رجعت پسند معاشرہ ہے…… جہاں ایک نوجوان لڑکی کا جلسے کرنا، لوگوں سے ملنا، انگریزی میں انٹرویو دینا خلاف دین و عزت سمجھا جاتا ہے…… سو یہ لوگ بے نظیر کے خلاف ہیں…… لیکن مغرب اس کو دوسرے زاویہ سے دیکھتا ہے۔ ان کی نظر سے دیکھو، تو وہ ایسا سوچتے ہیں کہ ایک نوجوان لڑکی کہ جس کے والد اور ایک جوان بھائی کو ظالمانہ طریقہ سے قتل کر دیا گیا…… لیکن وہ پوری ہمت و جرات سے ایک آمر کے خلاف کھڑی ہوگئی۔ اس کو اپنی جان کا بھی خطرہ ہے…… لیکن وہ جمہوریت کی لڑائی لڑ رہی ہے۔ سو وہ یہ حق رکھتی ہے کہ اس کو خراجِ تحسین پیش کیا جائے۔
اب ملالہ کا معاملہ بھی مغرب اپنی نظر اور معاشرتی رویہ پر دیکھتا ہے…… اور پھر جب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انسانی سروں سے فٹ بال کھیلنے والے درندوں، عورتوں، بچوں، سکولوں ہسپتالوں اور مساجد میں دھماکا کرنے والے ظالموں کے خلاف ایک معصوم بچی چھپ کر لکھتی رہی، تو ظاہر ہے کہ ان کی ہم دردیاں اس بچی سے ہوں گی۔ جب ان کو یہ خبر ملی کہ اس بچی کو اس جرم کی پاداش میں گولی مار دی گئی، تو ظاہر ہے ان کی ہم دردی کی انتہا ہوجائے گی۔ بس یہی وجہ ہے…… لیکن یہ فیس بک کے ارسطو محض اپنی رجعت پسندی اور خصوصاً ملالہ کو ملنے والی دولت و شہرت کی جلن میں اپنی فرسٹریشن کو ظاہر کرتے ہیں…… اور خواہ مخواہ ایک ایسی بچی کہ جو پاکستان کا وقار بنی کہ جس کی وجہ سے پاکستان کا ذکر دنیا بھر میں بہت مثبت سامنے آیا…… جس نے اسلام کا روشن چہرہ لوگوں کو دکھایا۔ بجائے اس پر فخر کیا جائے، اس کو خراجِ تحسین پیش کیا جائے، ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں کہ ہم خود ہی اپنی ہیروین کی توہین کرتے پھر رہے ہیں۔
دنیا میں کہیں کوئی واقعہ ہو جائے، ہم کھینچ تان کر اس کو اپنی ہی بیٹی پر لا کر لعن طعن کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر خود کو خود ہی اسلام کا مجاہد محب الوطن پاکستانی بنا کر خوش ہوتے ہیں…… یعنی میرا خیال ہے کہ خود فریبی کا شکار رہتے ہیں۔
بہرحال ہم ذاتی طور پر مسکان اور ملالہ دونوں کو اسلام کی جرات مند بیٹیاں مانتے ہیں۔ دونوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ان کو محسن انسانیت سمجھتے ہیں اور ان پر فخر کرتے ہیں۔ ایک اگر مودی کا متعصب چہرہ سامنے لائی، تو دوسری نے دنیا کو یہ عملاً سمجھایا کہ اسلام میں دہشت گردی کا کوئی جواز ہے نہ گنجایشِ انسانیت دوست اشخاص دونوں بارے یہی نعرہ لگاتے ہیں کہ ملالہ اور مسکان زندہ باد!
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔