پاکستان تحریکِ انصاف کی ’’تبدیلی سرکار‘‘ سے باقی کسی شعبے میں تبدیلی کی امیدیں تو دم توڑتی جا رہی ہیں…… لیکن سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ سیاسی رواداری کی جس جہت کو متعارف کروانے کا سہرا ’’پاکستان تحریکِ انصاف‘‘ کی حکومت اپنے سر سجانے کا برملا اعلان کرتی تھی، وہی نہ صرف پاکستانی اشرافیہ کی خام خیالی ثابت ہوئی…… بلکہ اس حوالے سے عوام کو بھی چونا لگایا گیا۔ چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں۔
چُن چُن کر بدزبانوں کا ٹولہ منتخب کیا گیا جو جھگڑا کرنے میں ماہر ہیں۔ اعداد و شمار کی بجائے چیخنا چلانا ان کی عام روش ہے۔ تین سال گزر گئے…… مگر اب بھی ذکر شدہ افراد کی مدد سے تمام خامیوں کا ملبہ پچھلی حکومتوں پر ہی گرایا جاتا ہے۔
انتقامی سیاست نہ کرنے کا عہد کیا گیا تھا لیکن سوائے انتقامی سیاست کے کوئی رنگِ سیاست نظر ہی نہیں آ رہا۔
منشور پہ تین سال بعد کم و بیش پچاس فیصد تو عمل ہوجانا چاہیے تھا…… مگر کتنے فی صد ہوا؟ سب کے سامنے ہے۔
کسی ایک سکینڈل پہ ’’حکومت چھوڑنا‘‘ تھی…… کتنے سکینڈل آئے…… لیکن کان پر جوں تک نہ رینگی۔
’’کابینہ مختصر ترین ہوگی‘‘، اب کابینہ کا حجم ویب سائٹ پہ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
ہمیشہ گلہ کیا جاتا تھا کہ ’’پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی نے باریاں لگائی ہوئی ہیں اور ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنا وہ اپنا فرضِ عین سمجھتی ہیں۔ اگر پاکستانِ تحریک انصاف کی حکومت آگئی، تو ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔‘‘ اب حالات آپ سب کے سامنے ہیں۔
دعوا کیا جاتا تھا کہ ’’سیاسی طور پر ماحول یکسر تبدیل ہوجائے گا۔‘‘ کبھی ’’امریکی انتخابات میں مباحثے کی مثالیں‘‘ پیش کی جاتی تھیں، تو کبھی ایک سکینڈل آنے پہ یورپی حکومتوں کے مستعفی ہونے کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ اور ’’سائیکل پہ دفتر آنا جانا‘‘ تو اب ایک ایسی ضرب المثل کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ جیسے گلی محلوں کے بابوں کو اکثر بچے چھیڑنے کی خاطر کوئی جملہ کستے ہیں۔ سائیکل والی مثال اب پاکستان تحریکِ انصاف کے لیے ویسی چھیڑ بن چکی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ چن چن کر لوگوں کو نہ صرف نوازا گیا بلکہ ایسا سلوک حکومت میں کیا جانے لگا جیسے عوام سے کچھ خاص بدلا لیا جانا مقصود ہو۔
پچاس لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں، غیر ملکیوں کا پاکستان ملازمتوں کے لیے عازمِ سفر ہونا، اوورسیز پاکستانیوں کو پیسے بھیجنا، حکومت پہ سوال اٹھنے پہ کرسیِ اقتدار سے الگ ہو جانا…… اور ’’مَیں غلط کروں، تو آپ نے مجھ سے سوال کرنا ہے‘‘، اور ’’مَیں آپ کے سوال سنوں گا‘‘، گورنر ہاؤسز، وزیر اعلا کی رہائش گاہیں، وزیر اعظم ہاؤس کو عوامی مقامات میں تبدیل کرنے کے نعرے، یہ سب کچھ وہ تھا جس نے عوام کی توجہ سمیٹ لی اور اب وہی عوام کفِ افسوس مل رہے ہیں کہ ہم نے ان دعوؤں کو کیسے سچ مان لیا……؟
ہاں! ایک اچھی بات ضرور ہوئی کہ عوام کو پچھلے کرپٹ بھی اچھے لگنے لگے۔ اور یہی ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے۔
غلط رہے ہوں گے پچھلے حکمران! اس بات پہ بحث مقصود نہیں…… لیکن کباڑا تو اس حکومت نے کر ہی دیا کہ جو غلط تھے، ان کو عوام کی نظر میں اچھا بنا دیا گیا…… اور دعوے ہیں کہ ’’ہم ملک کی قسمت بدل دیں گے۔‘‘
تبدیلی سرکار نے ابھی بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھوئے تھے، اس وقت ہی عرض کی تھی کہ یہ سرکار اپنی مدت ختم ہونے پہ یہ واویلا کرتی نظر آئے گی کہ ہمیں ایک موقع اور دیں، پھر دیکھیے ہم کیا کر دکھاتے ہیں! اور اب ویسی ہی صورتِ حال ہے کہ حالات ویسے ہی پلٹا کھا رہے ہیں۔ بس کچھ ہی دنوں بعد یہ خبریں پڑھنے اور سننے کو ملیں گی کہ ہمیں ایک موقع اور دیں۔ جس طرح سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے گیس پائپ لائن منصوبے کا افتتاح کرتے وقت عرض کی تھی کہ یہ منصوبہ پایے تکمیل تک نہیں پہنچ پائے گا اور حکومت کے آخری دنوں میں اس منصوبے کا افتتاح فیس سیونگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بالکل ایسے ہی گرین لائن بس پراجیکٹ اور رنگ روڈ راولپنڈی جیسے منصوبے ایسے ہیں جو موجودہ تبدیلی سرکار اپنی فیس سیونگ کے لیے استعمال کرے گی۔ ورنہ جانتی موجودہ حکومت بھی ہے کہ اس میں یہ منصوبہ (راولپنڈی رنگ روڈ) مکمل کرنے کی کتنی صلاحیت اور فنڈز ہیں! اس منصوبے میں بھی کس کس نے کیا کیا سمیٹا وہ ایک الگ داستان ہے!
جس سیاسی رواداری اور اخلاقیات کی، باقی سب کچھ چھوڑ کر، امید کی جا رہی تھی کہ ہوسکتا ہے تبدیلی سرکار اس میں ہی کوئی کارنامہ سر انجام دے دے، وہ بھی دیوانے کی بڑ ثابت ہوئی۔ شہرِ وفاق کے پڑوس میں کچھ پنچھی تو اُڑنے کو ویسے ہی بے تاب ہیں، تبدیلی سرکار کی رہی سہی ناؤ پی پی 206 خانیوال جیسے حلقے ڈبو رہے ہیں۔
پی پی 206 کی نشست پاکستان مسلم لیگ نواز کے نشاط خان ڈاہا کی وفات کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔ اس نشست پہ پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے رانا محمد سلیم صاحب نے ن لیگ کا مقابلہ کیا تھا اور کم و بیش 47 ہزار ووٹ بھی حاصل کیا تھا…… لیکن ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کے کرتا دھرتا مہان گروؤں نے نجانے کیا سوچا کہ یہاں پارٹی ٹکٹ نشاط ڈاہا مرحوم کی زوجہ کو ہی عنایت کر دیا۔ جب کہ اس معاملے میں ن لیگ بھلا کہاں پیچھے رہنے والی تھی۔ اس نے بھی ٹکٹ پاکستان تحریکِ انصاف کے سابق امیدوار رانا سلیم صاحب کو بخشا۔ مسئلہ یہاں ن لیگ کا اس لیے نہیں کہ انہیں تو ہم پاکستان تحریکِ انصاف کے دعوؤں کے ساتھ متفق ہوتے ہوئے غلط سمجھتے ہیں۔ اور وہ جو بھی کریں غلط شمار کیجیے…… لیکن مسئلہ تو تبدیلی سرکار کا تھا…… اور انہوں نے اپنے امیدوار تک تبدیل کرلیے۔ پھر کہاں گئیں وہ سیاسی روایات جن کا واویلا تبدیلی سرکار کیا کرتی تھی…… اور کہاں گئے وہ سیاسی رویے جنہیں درست کرنے چلی تھی پاکستان تحریکِ انصاف کی سرکار؟ یہ کیسی سیاست ہے جو تبدیلی سرکار کر رہی ہے؟ کیوں کہ یہ تو وہی پرانی روش ہے جو ہم سالوں سے دیکھ رہے تھے، تو پھر نیا کیا ہوا؟
جس طرح پاکستان تحریکِ انصاف کے باقی تمام دعوے کھوکھلے ثابت ہو رہے ہیں۔ اسی طرح تبدیلی سرکار کے سیاسی میدان میں معاملات درست کرنے کی باتیں پانی کا بلبلہ ثابت ہو رہی ہیں۔ سونے پہ سہاگا یہ ہو رہا ہے کہ تبدیلی سرکار کے سرخیل دفاع کرنے پہ بھی مجبور ہیں۔ کیوں کہ ہمارے ہاں یہ سیاسی روایت بھی اب تک تبدیل نہیں ہوسکی کہ پارٹی کے اندر سے مخالفانہ آواز بلند کرنے کی جرات کوئی کرسکے۔ اکبر ایس بابر اور جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کا حال تو ہم دیکھ ہی چکے ہیں۔
بہتی گنگنا تھی…… ہاتھ دھو لیے…… باقی، اللہ اللہ خیر سلّا……!
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔